طالبان کے حکومت میں آنے کے بعد افغان خواتین پر اپنی ہی سرزمین تنگ کر دی گئی۔
طالبان حکومت نےخواتین کے بنیادی حقوق سلب کرتےہوئے ان پر تعلیم حاصل کرنے سے لےکر زندگی کےمختلف امور پر پابندی عائد کردی۔
دی گارڈین کی رپورٹ کےمطابق خواتین پر تعلیمی پابندیوں کے حوالے سے افغانستان دنیا کا واحد ملک بن گیا ہے جہاں 11 سال سے زائد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سکول جانے کی عمر میں 80 فیصد افغان لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں،خواتین کی تعلیم پر پابندی سے 10 لاکھ سے زائد افغان لڑکیاں متاثر ہوئی ہیں۔
بی بی سی کےمطابق سال 2022 میں افغان طالبان کی جانب سےخواتین کی یونیورسٹیوں پرپابندی عائدکردی گئی۔
افغانستان کےشہر قندھارمیں 10 سال سےزائد عمرکی لڑکیوں کو تعلیم سے روک دیا گیاجو کہ سراسر ظلم ہے،لڑکیوں کو سیکنڈری تعلیم سے محروم رکھنے سے افغان معیشت کو گزشتہ 12 ماہ میں 5 سو ملین سے زائد امریکی ڈالر کا نقصان ہوا۔
لاس اینجلس ٹائمز کے مطابق جیسے ہی افغانستان کا تعلیمی سال شروع ہو رہا ہے، طالبان کی طرف سے اب بھی 10 لاکھ سے زیادہ لڑکیاں تعلیم سے محروم ہیں،
افغان طالبہ کا کہنا ہے کہ ہمارا خواب ہےکہ ہم اچھی تعلیم حاصل کریں لیکن طالبان ہمیں تعلیم سے محروم کر گئے ہیں،ہم روز چھپ کر سکول آتے ہیں کہ کہیں طالبان ہمیں دیکھ کر روک نہ لیں۔
ایک افغان طالبہ کا کہنا ہےکہ میں ڈاکٹر بننا چاہتی تھی لیکن طالبان نے یونیورسٹیز پرپابندی عائد کر دی ہے۔
حال ہی میں افغان طالبان کی جانب سےتعلیمی مراکزمیں ششم جماعت سے اوپر کی لڑکیوں پرپابندی کی اطلاع سنگین خطرےکی گھنٹی ہےتعلیم کےعلاوہ طالبان کےقبضے کےبعد افغان خواتین بنیادی انسانی حقوق سے بھی محروم ہیں۔
افغان خواتین پر تشدد اور ان کے حقوق پر طالبان کا کریک ڈاؤن آخر کب تک جاری رہے گا؟