لاپتہ افراد سے متعلق کمیشن کی رپورٹ سپریم کورٹ کے سامنے آچکی۔ لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر بیرونی قوتوں کی ایما پربدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد 10 ہزار ہے جس میں سے 8 ہزار کے کیسزحل ہوچکے ہیں۔ بلوچستان میں 2700 میں سے 2200 لاپتہ افراد بازیاب ہو چکے ہیں۔ کالعدم تنظیمیں لوگوں کے نام لاپتہ افراد کی فہرست میں لکھواتی ہیں۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کے واقعات کی تعداد نسبتاً کم ہے مگر دشمن قوتیں پاکستان کو ’’لاپتہ افراد‘‘والی ایسی ریاست کے طور پر پیش کرناچاہتی ہیں۔
پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ہمیشہ بنیادی انسانی حقوق کے آئینی مینڈیٹ کی حمایت اور پاسداری کا عہد کیا ہے۔ پاکستان کی سیکورٹی فورسز نے لوگوں اور معاشرے کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ان انتھک کوششوں کے باوجود پاکستان کے قانون نافذ کرنے والے اداروں پر بغیر ثبوت کے ہر لاپتہ افراد کی گمشدگی کا الزام دھر دیا جاتا ہے۔ اس پراپیگنڈے کو سوشل میڈیا اور کچھ میڈیا پر ایک سوچی سمجھی مہم کے ذریعے پھیلا کر عوام میں غلط فہمیاں پیدا کی جاتی ہیں۔
پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملے کی ابتدا سوویت افغان جنگ کے بعد 1990 کی دہائی کے وسط سے ہوئی۔ گزشتہ دو دہائیوں سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن ریاست ہونے کے باوجود پاکستان میں دہشت گردی کے مقدمات میں سزا کی شرح سب سے کم ہے۔ اس مسئلے کا توجہ طلب پہلو یہ ہے کہ ہمارا قانون دہشتگردی کے مشتبہ افراد کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔
لاپتہ افراد اور جبری گمشدگیوں کے واقعات حقیقت پر مبنی نہیں، لاپتہ افراد کے نام پر سیاست کرنے والے عناصر بیرونی قوتوں کی ایما پربدامنی اور انتشار پھیلا رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر پراپیگنڈے کے ذریعے عوام میں غلط فہمیاں پیدا کی جارہی ہیں۔