سپریم کورٹ آف پاکستان اور لاہور ہائیکورٹ کے ججز کو دھمکی آمیز خط موصول ہونے پر دہشتگردی کے مقدمات کے تحت مقدمات درج کر لئے گئے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججز کو ملنے والے خطوط کا مقدمہ اسلام آباد کے تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کیا گیا جبکہ لاہور ہائیکورٹ کے معاملے کا مقدمہ سی ٹی ڈی تھانہ لاہور میں درج ہوا ہے۔
سپریم کورٹ
سپریم کورٹ کی آر اینڈ آئی برانچ انچارج کے متعلقہ کلرک کی مدعیت میں درج مقدمہ انسداد دہشتگردی کی دفعہ دہشتگردی ایکٹ اور دفعہ 507 کے تحت درج کیا گیا جبکہ ایف آئی آر کے مطابق عام ڈاک موصول ہوئی اور متعلقہ جسٹس صاحبان کے سیکرٹریز کو ڈاک وصول کروائی گئی۔
متن کے مطابق خطوط میں چار لفافے تھے جن میں سے ایک چیف جسٹس پاکستان اور تین دیگر تین جسٹس صاحبان کے نام سے ہیں۔
مقدمہ کے متن کے مطابق ایڈمن انچارج خرم شہزاد نے تین اپریل کو بذریعہ فون بتایا کے ان لفافوں میں سفید پاؤڈر نما کیمیکل موجود ہے، تین خطوط گلشاد خاتون پتہ نامعلوم اور ایک خط سجاد حسین پتہ نامعلوم کی طرف سے بھیجے گئے ہیں۔
خطوط کے زریعے خوف ہراس پھیلانے کی کوشش کی گئی ہے۔
لاہور ہائیکورٹ
لاہور ہائی کورٹ کے ججز کو بھیجے جانے والے خطوط کے مقدمے میں بھی دفعہ 7 اے ٹی اے اور 507 شامل کی گئی ہیں۔
پولیس نے مقدمہ ڈی ایس پی سکیورٹی ہائی کورٹ کی مدعیت میں درج کیا جبکہ دھمکی آمیز خطوط کو تجزیے کے لیے پنجاب فرانزک سائنس ایجنسی بھجوا دیا گیا ہے۔
سی ٹی ڈی حکام کے مطابق ملزمان کی گرفتاری کے لیے شواہد جمع کئے جا رہے ہیں۔
یاد رہے کہ چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی سمیت سپریم کورٹ کے 4 ججز کو بھی دھمکی آمیز خطوط موصول ہوچکے ہیں۔
واضح رہے کہ چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ ملک شہزاد احمد خان کو بھی مشکوک خط موصول ہوا۔
ملک شہزاد احمد خان کو موصول ہونے والے مشکوک خط میں پاوڈر اور تحریر موجود ہے اور ہائیکورٹ کے عملے کی جانب سے سیکیورٹی اداروں کو اطلاع کر دی گئی تھی۔
اس سے قبل ہائیکورٹ کے چار ججز کو مشکوک خط موصول ہو چکے ہیں جن میں جسٹس شجاعت علی خان،جسٹس شاہد بلال حسن،جسٹس عالیہ نیلم اور جسٹس عابد عزیز شامل ہیں۔