پاکستان تحریک انصاف ( پی ٹی آئی ) نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کے خط پر از خود نوٹس کے بعد بنائے گئے سپریم کورٹ کے 7 رکنی بینچ کو چلینج کرنے کا اعلان کردیا۔
ترجمان پی ٹی آئی رؤف حسن اور دیگر رہنماؤں نے نیوز کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے لکھے جانے والے خط کی انکوائری کے لئے بنائے گئے یک رکنی کمیشن کے سربراہ تصدق جیلانی اس کمیشن سے پیچھے ہوگئے ہیں اور انہوں نے لکھا ہے جوڈیشل پروپرائیٹری کے تحت انکوائری کمیشن قائم نہیں ہوسکتا جس کے بعد چیف جسٹس نے 7 رکنی بنچ تشکیل دیا ہے جو اب خط پر سماعت کرے گا، تاہم، ہم چیف جسٹس کو اپنی پسند کے ججز کے ذریعہ من پسند فیصلہ نہیں کرنے دیں گے۔
رؤف حسن کا کہنا تھا کہ اس سب کے بعد چیف جسٹس کو چلے جانا چاہیے، عدلیہ اور ایگزیکٹو کی ملی بھگت تھی، یہ سب تصدق جیلانی کے خط نے کھول کر رکھا، ہم اس بنچ کو نہیں مانتے اس کو چیلنج کریں گے، بینچ میں نامزد 6 جج صاحبان چیف جسٹس کے پسندیدہ جج ہیں، یہ سب کچھ ملی بھگت کا تسلسل ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ خط کے معاملے پر سماعت براہِ راست دکھائی جائے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی لیگل برادری کو مبارکباد پیش کرتے ہیں، آج نئے سرے سے پاکستان کی تاریخ لکھی جا رہی ہے، امید ہے مقدمہ کی سماعت قانون کی تحت ہوگی، حکومت کے قانونی ماہرین کیش کے تھیلے لے کر پھر رہےہیں، قوم اب آئین و قانون کیلئے کھڑی ہوگی۔
اس موقع پر خالد خورشید کا کہنا تھا کہ جسٹس منیر کے بعد ہماری عدلیہ آزاد نہیں رہی، عدلیہ کو ہمیشہ ذاتی فیصلہ کیلئے فریکچر کیا گیا، تاریخ میں پہلی دفعہ 6 جج صاحبان نے خط لکھا، یہ ایک بہت بڑی دلیری کا کام کیا گیا ہے، اس کو ضائع کرنا ہے یا منطقی انجام تک پہنچانا ہے؟۔
انہوں نے کہا کہ آج افغانستان ہم سے انصاف میں آگے نکل گیا ہے، آئی ایم ایف قرضے کے بعد روٹی مشکل ہوگی، عدلیہ آزاد ہوتی تو بھٹو کو پھانسی نہ ہوتی۔