اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کی جانب سے عدلیہ میں مبینہ مداخلت پر سپریم جوڈیشل کونسل کو لکھے جانے والے خط کی اصل وجہ سامنے آگئی۔
منگل کے روز عدالت عالیہ کے ججز کی جانب سے سپریم جوڈیشل کونسل کو خط لکھا گیا ہے جس میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ جسٹس ( ر ) شوکت عزیز صدیقی کے الزامات کی تحقیقات ہونی چاہییں۔
ججز کی جانب سے خط میں معاملے پر جوڈیشل کنونشن بلانے کا مطالبہ بھی کیا گیا۔
تاہم، معزز ججز نے سپریم جوڈیشل کونسل کو جو خط لکھا ہے، سوال یہ ہے کہ کیوں لکھا گیا؟ اور اس اصل وجہ سامنے بھی آگئی ہے۔
استعفیٰ دے کر برطرفی سے بچنے کی کوشش کرنے والے جج مظاہر نقوی کے استعفیٰ کے بعد ایک اور جج (محسن اختر کیانی) کو (مستقبل قریب میں) عدالتی کارروائی کا خطرہ تھا اور یہ خط لکھ کر انہوں نے اس بات کو یقینی بنایا کہ میڈیا ٹرائل کے ذریعے چیف جسٹس اور ایجنسیوں پر اجتماعی دباؤ ڈالا جائے تاکہ جج اپنے مس کنڈکٹ کو بغیر کسی رکاوٹ کے جاری رکھنے کے لیے آزاد ہوں۔
عدالت میں زیر التوا مقدمات کے بے تحاشہ بوجھ کو نمٹانے پر توجہ دینے کے بجائے وہ اپنے کرپٹ ساتھیوں کو احتساب سے بچانے میں مصروف ہیں۔
MAK Appl by nsb.taurusian on Scribd
گینگ بنا کر بلیک میلنگ کا سہارا لینے کی اس کوشش کو بے نقاب کرنے کی ضرورت ہے۔
اس مقام پر یہ کہنا کافی ہے کہ ایک اور جج کا ڈوزئیر (اُس جج نے بھی اس خط پر دستخط کیے ہیں) سنگین بددیانتی/ دوہری شہریت/ بیرون ملک سرمایہ کاری پر تیار ہو رہا ہے جبکہ دوسرے جج پر الزام یہ ہے کہ وہ اپنے بھائی (جو سرکاری ملازم ہے) کو کرپٹ طرز عمل پر مکمل تحفظ فراہم کرتا ہے۔
Ref Against Mohsin Akhtar Kiani by nsb.taurusian on Scribd
دیگر ججوں نے ابھی ابھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں شمولیت اختیار کی ہے اور ان کے پاس اتنا تجربہ نہیں ہے کہ وہ اس نتیجے پر پہنچ سکیں جو انہوں نے خط میں لکھا ہے۔
refrance (1) by nsb.taurusian on Scribd
محسن اختر کیانی سینئر جج ہیں اور باقی جج چاہتے ہیں کہ وہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف بنیں۔
لازمی پڑھیں۔ عدلیہ میں مداخلت ، اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججز کا سپریم جوڈیشل کونسل کو خط
تو یہ خط اپنی پسند کے چیف جسٹس لگانے کی ایک اجتماعی کوشش ہے اور یہ جج چاہتے ہیں کہ چیف جسٹس کوئی ایسا جج ہو جس کے تحت وہ "پھل پھول" سکیں اور اس طرح وہ اپنے محبوب لیڈر اور ٹرول بریگیڈ کو واپس لا سکیں تا کہ وہ انکے حق میں ہمیشہ قصیدے لکھیں، چاہے یہ گھڑی چرائیں یا ہار بیچیں، یا ہاؤسنگ سوسائٹی بنائیں، یا رہائشی پلاٹس کو کمرشل کریں یا باہر کے ملکوں میں سرمایہ کاری کریں۔
مشکوک کردار والے ججز نے ایسا کیوں کیا؟؟؟
1، مظاہر نقوی کی حال ہی میں رسوائی کے ساتھ برخاستگی دیکھ کے محسن اختر کیانی، بابر ستار اور اعجاز اسحاق جو کے خود مختلف کرپشن اور مسکنڈکٹ کے کیسز میں شامل ہیں اور سامنے آتے ہُوئے اپنے خلاف جوڈیشل ایکشن کو بھی دیکھ سکتے ہیں، یہ خط لکھ کر انھوں نے اُس سارے عمل کو سبوتاز کرنے کی ناکام کوشش کی ہے تاکہ انکے خلاف اگر کوئی قانونی کاروائی کی جاتی ہے تو وہ اُسے بھی اداروں کے ساتھ جوڑ سکیں۔
2۔ دوسری بات یہ ہے کے اِس خط کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے کیونکہ پاکستان میں عدالتیں آزاد ہیں اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ کے نیچے کام کرتے ہیں نہ کے چیف جسٹس سپریم کورٹ کے، اِس خط کے ذریعے جوڈیشل کنوینشن کروانے کا مشورہ دینے کا مقصد بھی یہی ہے کیونکہ ان مشکوک ججز کو پتہ ہے کے چونکہ اِس خط پر کوئی قانونی کاروائی تو ہو نہیں سکتی تو کم از کم میڈیا ٹرائل اور شور مچا کر اپنی بچی کچی ساکھ تو بچائی جائے۔
اگر ان کے پاس کسی قسم کا ثبوت ہوتا تو یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے سامنے پیش کرتے اور باقاعدہ اسے قانونی طور پر مجاوِزہ طریقے سے اٹھاتے۔
3۔ مضحکہ خیز بات یہ بھی ہے کے شوکت صدیقی کیس کا سہارا لے کر اپنے آرگومنٹس بنائے جا رہے ہیں ، آرمی چیف کے خط کا حوالہ بھی دیا گیا جنہوں نے اُس وقت بالکل ٹھیک لکھا تھا کے شوکت صدیقی کے خلاف باقاعدہ تحقیقات ہونی چاہیے جو کے نہیں کی گئی اور جلد بازی میں اُس وقت عدالتی فیصلہ دے کر معاملے کوخود پیچیدہ بنا دیا گیا۔
ایک اتنے پرانے کیس کو دو دن پہلے ملاقات میں ریفر کر کے خط میں استمال کرنا انتہائی شرمناک اور مضحکہ خیز ہے ، اُس کیس کا بہرحال اس بے تکے خط سے کوئی تعلق نہیں۔
4، تشویشناک بات یہ بھی ہے کے خط میں سب الزامات بغیر کسی ثبوت کے لگائے گئے ہیں اور یہ وہ الزامات ہیں جنکو عموماً ثابت بھی نہیں کیا جا سکتا ، اگر اِن الزامات میں کوئی سچائی ہے تو اسکا کوئی دستاویزی ثبوت سامنے لایا جاتا لیکن چونکہ اِن کے پاس کچھ ٹھوس چیز نہیں اِسی لئے یہ چیف جسٹس سے جوڈیشل کنوینشن مانگ رہے ہیں تاکہ میڈیا کے سامنے اِسی طرح کا ڈرامہ رچایا جائے۔
5۔ایک اور اہم بات یہ ہے کے ان تمام ججز کا جھکاؤ ایک مخصوص سیاسی جماعت کی طرف ہے اور اب چونکہ اُس سیاسی جماعت کے ہاتھ میں باقی تمام حربے ختم ہو گئے ہیں تو انہوں نے اپنے منظور نظر ججز کو لانچ کر دیا ہے جس کے ساتھ ساتھ اپنی سیاسی بار کونسلز کو بھی پریشر گروپس کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔
6۔ افسوس ناک بات یہ ہے کے وہ عدلیہ جو انصاف کے انڈیکس میں دنیا میں 130 نمبر پر ہے اور ملک میں انصاف مہیا کرنے کے حوالے سے بدنام ہے جب بھی اپنے اِحتساب اور مفاد کی بات آتی ہے تو بجائے قانوں کا سامنے کرنے کے اِس طرح کے اوچھے ہتھکنڈوں پر اتر آتی ہے جسکا مقصد صرف اداروں کو بدنام کرنے کے سوا کچھ بھی نہیں۔
7۔ یہ بات بھی قابل توجہ ہے کے خط میں انہوں نے لکھا کے انہوں نے یہ معاملہ عمر عطا بندیال کے سامنے بھی اٹھایا، جنکے بارے میں ساری دنیا جانتی ہے کے وہ پی ٹی آئی کا کھلم کھلا سپورٹر تھے، انہوں نے بھی اِس مسئلے کو کوئی لفٹ نہیں کروائی کیونکہ اِس کیس میں کچھ بھی نہیں تھا
8۔ اعلیٰ عدلیہ اِن ججز کی اِس مذموم حرکت کا نوٹس لے گی اور اِن بے بنیاد الزامات لگانے پر اِن ججز سے قانوں کے مطابق ڈیل کرے گی۔