صدر ولادیمیر پیوٹن نے 87.9 فیصد ووٹوں کے ساتھ روسی صدارتی انتخاب جیت لیا۔ ابتدائی سرکاری نتائج کے مطابق پیوٹن پانچویں بار روس کے صدر بن گئے۔
روسی میڈیا کے مطابق پیوٹن 1999 سے روس پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ صدارتی الیکشن میں 11 کروڑ 23 لاکھ ووٹرز میں سے 74 فیصد نے ووٹ کاسٹ کیا۔ صدارتی انتخاب میں سب سے زیادہ چیچنیا میں 96 فیصد ووٹنگ ہوئی۔
صدارتی انتخابات میں ان لائن ووٹنگ بھی ہوئی، خود صدر پوٹن نے کمپیوٹر پر ان لائن ووٹ ڈالا۔ روس میں صدارتی انتخابات کے لیے ووٹنگ تین روز سے جاری تھی۔
پیوٹن کے مقابلے پر تین صدارتی امیدوار تھے جن میں سے ہر ایک لگ بھگ چار فیصد ووٹ حاصل کر پائے۔
روسی صدر ولادی میرپیوٹن کا کہنا ہے کہ ان کی جیت روس کو مزید مضبوط بنادے گی، روسی صدارتی انتخابات میں جیت کے بعد الیکشن ہیڈکوارٹر میں وکٹری اسپیچ میں ولادی میرپیوٹن نے کہا یوکرین میں مغربی فوج کی موجودگی دنیا کو تیسری جنگ عظیم کے دہانے پر پہنچاسکتی ہے۔ یوکرین میں امن سےمتعلق بات چیت کیلئے یوکرینی صدر آپشن نہیں۔
ولادی میرپیوٹن نے کہا کہ روس کو سوچنے کی ہے کہ یوکرین میں امن کیلئے کس سے بات کی جاسکتی ہے۔ روس میں انتخابی نظام امریکا سے زیادہ شفاف ہے۔ امریکا سمیت مغرب میں کوئی جمہوریت نہیں۔ عالمی افق پرکامیابی پرچین کی تعریف کی۔ بولے چین کے خلاف پابندیاں ختم ہونی ہی ہیں۔ چین اورروس کے درمیان پائیدارتعلقات مستقبل میں مزید مضبوط ہوں گے۔
روسی صدر کا کہنا تھا کہ نوالنی کی موت افسوسناک ہے لیکن جیل میں اور لوگ بھی تو مرتے ہیں، نوالنی کی موت سے چند دن پہلے انہیں مغرب کے حوالے کرنے کا فیصلہ ہوا تھا، ہمارا ارادہ تھا کہ انہیں اس شرط پر رہا کریں کہ وہ روس واپس نہ آئے، آپ یقین نہیں کریں گے لیکن جو ہوا وہ ہمارے اختیار میں نہیں تھا۔