ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیرا مودی سرکار کی جانب سے متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019ء کے نفاذ پر جہاں ملک کے اندر احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا اور وہاں اب بین الاقوامی دنیا نے بھی اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیدیا ہے
متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پر اقوام متحدہ، امریکا اور ایمنسٹی انٹرنیشنل کی جانب سے شدید تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے
اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن نے بھارت کے شہریت ترمیمی قانون کو ملک کے انسانی حقوق قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ نے مودی سرکار کی جانب سے متنازعہ شہریت قانون پر کہا ہے کہ ”ہم اس قانون کے حوالے سے فکرمند ہیں اور دیکھ رہے ہیں کہ اس کو کس طرح نافذ کیا جائے گا“۔
ترجمان امریکی محکمہ خارجہ کے مطابق ”مذہبی آزادی کا احترام اور تمام اقلیتوں کےلئےقانون کے تحت مساوی سلوک بنیادی جمہوری اصول ہیں“۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نےبھی بھارت میں متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019ء کے نفاذپرمودی سرکار کو شدیدتنقیدکانشانہ بناتے ہوئےاسےایک امتیازی قانون قراردیا ہے۔
مودی سرکارکےنوٹیفکیشن کےبعد ایمنسٹی انڈیا نے”ایکس ”پر کئی پوسٹوں میں کہاکہ متنازعہ قانون برابری اور عدم امتیاز کےحقوق کے منافی ہےجن کی ضمانت اقتصادی، سماجی اور ثقافتی حقوق کے بین الاقوامی معاہدے میں دی گئی ہے
ایمنسٹی انڈیا نےکہاکہ ہم بھارتی حکام پر زوردیتے ہیں کہ اس متنازعہ قانون کے حوالےسے پرامن احتجاج کا جواب دیتے ہوئےآزادی اظہار اور اجتماع کے حقوق کا احترام کریں“۔
متنازعہ شہریت کےقانون کا نفاذ اس بات کا ثبوت ہےکہ مودی سرکار ملک کو ایک ہندوتوا ریاست میں تبدیل کرنے اورملک میں آباد 20کروڑ سے زائد مسلمانوں کو پسماندگی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے۔