لاہور انسداد سمگلنگ حکام نے نرالی کارروائی کرتے ہوئے امام مسجد رکشہ ڈرائیور کو سمگلر بنا کر جیل بھیجنے والے محکمے کے لوگوں کے خلاف آواز اٹھانے والے انسپکٹر کو ہی ’ سزا ‘ دے ڈالی اور ڈیوٹی آف کر دیا ۔
کسٹم حکام نے خاموشی کے ساتھ انسپکٹر زبیر کو شوکاز نوٹس جاری کیا ، جس نے امام مسجد رکشہ ڈرائیوکو اپنی تحقیقات میں معصوم قرار دیا اور جب انسپکٹر زبیر نے منشیات کے کیس کے حقیقی ملزمان کو نوٹس جاری کیئے تو اتھارٹی کی جانب سے مزید کارروائی کرتے ہوئے انسپکٹر زبیر کو ڈیوٹی آف ہی کر دیا ۔
ذرائع کے مطابق انسپکٹر زبیر کہاہے کہ رکشہ ڈرائیور اور کمپنی کے مالک کے درمیان ہونے والی واٹس ایپ چیٹ ریکارڈ پر ہے ، جس میں کمپنی مالک ، رکشہ ڈرائیور کو چاروں کارٹن پہنچانے کی ہدایت کر رہاہے ۔
کارگو مینجر قیوم کاکہنا ہے کہ یہ پارسل مشکوک تھا جس کی اطلاع کسٹم حکام کو کی گئی، ایک سوال کے جواب میں قیوم نے کہا کہ مالک کے ایک دوست لاہور میں کسٹمز کلکٹر کے عہدے پر ہیں جن کا اکثر آفس میں ذکر ہوتا رہتا ہے۔
ہر بنس پورہ کے رہائیشی وسیم خان اپنے علاقے کی مسجد کے امام ہیں اور فارغ وقت میں آن لائن ٹیکسی کمپنی کے ساتھ رکشہ چلاتے ہیں۔ وسیم کے مطابق 14 دسمبر کو اسے ایشیا کارگو کے مالک کی فون کال آئی اور کہا گیا کہ ایک کھیپ لاری اڈہ تک پہنچا دو۔ فون کے مطابق میں کارگو کمپنی کے آفس گیا اور بلٹی نمبر بتایا جو مجھے مالک نے بتایا تھا۔ انہوں نے مجھے چار کارٹن پکڑا دئیے۔ میں کارٹن لیکر لاری اڈہ جا رہا تھا کہ مجھے کسٹمز حکام نے پکڑ لیا۔ کسٹمز حکام نے کھیپ کے اصل ملزموں تک پہنچنے کی بجائے رکشہ ڈرائیور کے خلاف مقدمہ درج کر کے اسے جیل بھیج دیا
اس سلسلے میں جب ملزم وسیم خان کے محلہ داروں سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ وسیم کو دس سال سے جانتے ہیں۔ وہ ان کی مسجد کے سابق امام ہیں اور ان کی بیوی اور بیٹی بھی مذہبی رجحان رکھتی ہیں۔ وسیم پہلے فیملی کے ساتھ مسجد کے ایک کمرے کے گھر میں رہتا رہا اب ڈیڑھ مرلے کے کرائے کے گھر میں رہتا۔ گھر میں اس کی بیوی نے چارپائی کے اوپر ٹک شاپ بنا رکھی ہے۔
وسیم نے کبھی محلے میں نظر اٹھا کر نہیں دیکھا ہم اپنی بچیوں کو اس کے ساتھ سکول بھیجتے ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ منشیات فروشوں کا رہن سہن اور طرز زندگی ایسا نہیں ہوتا۔ انہوں نے متعلقہ حکام سے اپیل کی کہ وسیم بیگناہ ہے اسے فوری رہا کیا جانا چاہئے۔ قانونی ماہر چودھری عبد الماجد ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ کیس بہت سخت نوعیت کا ہے اس میں عمر قید اور کم ازکم بیس لاکھ جرمانہ ہو سکتا ہے
ایجنسی کی طرف سے اصل ملزموں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔