"سماجی کاموں کی وجہ سے کئی بار قبائلی اضلاع کے اندر جانے پر پابندیاں لگائی گئی لیکن میں نے ہمت نہیں ہاری کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ میں اچھا کام کررہا ہوں "
یہ کہنا ہے ضلع باجوڑ سے تعلق رکھنے والے سماجی ورکر مصباح الدین اتمانی کا تعلق تحصیل اتمانخیل سے ہے۔ وہ زیادہ تر بنیادی انسانی حقوق، خواتین کی تعلیم اور کمزور طبقات یا مرجنلائزڈ کمیونٹیز کے مسائل کو اجاگر کرتے ہیں۔ انہوں نے ایف سی آر کے خاتمے کے لیے بھی کافی جدوجہد کی ہے۔
مصباح الدین نے بتایا کہ انہوں نے سماجی کاموں کا آغاز 2013 میں کیا۔ 2008 میں جب قبائلی ضلع باجوڑ میں فوجی آپریشن ہو رہا تھا تو یہاں سے لاکھوں لوگ آئی ڈی پیز بن گئے وہ ملک کے مختلف شہروں کو منتقل ہو گئے تاکہ ان کو امن ملے۔ میں بھی ان متاثرین میں شامل تھا۔ جب باجوڑ میں آپریشن ہو رہا تھا تو میں نے دیکھا کہ یہاں مختلف تعلیمی ادارے تباہ ہو رہے تھے، کچھ طالبان تباہ کر رہے تھے کچھ طالبان کے خلاف جنگ میں استعمال ہو رہے تھے، اس کے علاوہ لوگوں کے گھر بھی تباہ ہو رہے تھے۔ مارکیٹس وغیرہ وہ بھی تباہ ہو رہی تھیں۔ سڑکیں بھی تباہ ہورہی تھی۔ قبائلی عوام زندگی کی بنیادی سہولیات سے محروم تھے اور بد امنی کا بھی شکار تھے تو میں نے ان حالات کی وجہ سے آواز اٹھانا شروع کیا۔
بے گھر ہونے کے بعد ظلم کے خلاف آواز بلند کی
جب ہم آئی ڈی پیز بن گئے اور دیگر علاقوں کو منتقل ہو گئے تو ہم نے وہاں پہ دیکھا کہ وہاں پر زندگی کا جو نظام ہے وہ صحیح طریقے سے چل رہا ہے۔ لوگوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات کم از کم میسر ہیں۔ لوگوں امن سے جی رہے ہیں۔ ان کے بچے سکول جاتے ہیں۔ ان کے ساتھ یہ خوف نہیں ہے کہ جہاز سے بمباری ہوگی، طالبان بمباری کریں گے اور وہ اس کا نشانہ بن جائیں گے۔ مصباح الدین نے بتایا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سب کچھ دیکھنے کے بعد انہوں نے ایف سی ار کے خلاف آواز اٹھانا شروع کیا۔ قبائلی اضلاع کے اندر انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے آواز اٹھانا شروع کیا۔
جب ہم ایف سی آر کے خلاف آواز اٹھاتے تھے، جب ہم خواتین کی تعلیم کے حوالے سے آواز اٹھاتے تھے، جب ہم امن کی لیے آواز اٹھاتے تھے، تو ہمیں دھمکیاں ملتی تھی، ہمارے والدین کو دھمکایا جاتا تھا، ان کو ٹارچر کیا جاتا تھا۔ ہمارے جو قریبی رشتہ دار ہیں ان پر پریشر ڈالا جاتا تھا اور ان کے ذریعے ہماری آواز خاموش کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
مجھے بھی تحریک طالبان پاکستان کے نام پر یا مختلف جو انتہا پسند تنظیمیں ہیں ان کے ذریعے دھمکیاں دی جاتی تھی اور مختلف ایسے موقع آئے ہیں جہاں پر مجھے محسوس ہوا کہ یہ لوگ ابھی مجھے ماریں گے اور وہ یہ کہہ بھی دیتے تھے۔ پہلے سے کہ آپ کے پاس تین دن کا ٹائم ہے اور آپ کے پاس چار دن کا ٹائم ہے اور پھر وہ اپنی موجودگی بھی ظاہر کر دیتے تھے لیکن میں نے ان تمام مشکلات کی کوئی پرواہ نہیں کی۔ مصباح الدین اتمانی نے کہا۔ قبائلی اضلاع میں امن کے لیے آواز اٹھانا آسان کام نہیں ہے، میں نے جب امن کی بات کی تو مجھے قتل تک کی دھمکیاں دی گئی، کہا گیا کہ تین دن کے اندر آپ کو مار دیا جائے گا۔
خواتین کے حقوق کی بات کی
مصباح کا کہنا ہے کہ جب قبائلی اضلاع میں ایف سی ار تھا تو بہت ساری مشکلات آئی لیکن میں نے ان مشکلات کا مقابلہ صرف اس ایک سوچ پہ کیا تھا کہ ہم جو کر رہے ہیں ہم ٹھیک کر رہے ہیں ہم ا،م کے لیے کر رہے ہیں لوگوں کی بھلائی کے لیے کر رہے ہیں اس میں اگر کوئی مشکل ہے بھی تو اس کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گے۔
مصباح الدین اتمانی نے زیادہ تر کام تعلیم پر کیا ہے اس کے علاوہ انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے آواز اٹھائی ہے، بنیادی انسانی حقوق کے لیے کام کیا ہے۔ باجوڑ میں اب تک انہوں نے چار سے زیادہ فری کوچنگ اکیڈمیاں بنائی ہے جہاں پر طلبا و طالبات کو فری کوچنگ کلاسز کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ ان کو ٹیکنیکل سکلز کی سہولت میسر ہوتی ہے۔ انہوں نے قبائلی اضلاع میں لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے آگاہی سیمینارز اور سیشنز منعقد کیے ہیں۔ ڈرگز کے حوالے سے آگاہی سیمینارز منعقد کروائے ہیں اور لوگوں کو آگاہی دی ہے۔
طلباء کے حقوق کے لیے آواز
مصباح الدین اتمانی آج کل فری لانس جرنلسٹ کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔ صحافت میں بھی میں ان کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنے قبائلی علاقوں کے حوالے سے لکھیں وہاں کے مسائل کے حوالے سے کام کریں۔ مصباح الدین اتمانی نے نہ صرف اویئرنیس پر کام کیا ہے بلکہ ضلع باجوڑ میں سینکڑوں طلباء کے سکالرشپس، داخلوں میں بھی مدد فراہم کی ہے۔ انہوں نے علاقے میں بیواوں کو راشن کے ساتھ ساتھ سینکڑوں یتیموں کوعید پیکجز بھی دیئے ہیں۔
مصباح الدین اتمانی کو قبائلی اضلاع میں غیر قانونی مہاجرت پر ڈاکیومنٹری بنانے پرانٹرنیشنل ایوارڈ بھی ملا ہے۔ اس کے علاوہ ان کو سماجی کام پر مختلف اداروں اور تنظیموں کی جانب سے 22 سے زائد ایوارڈز بھی ملے ہیں۔ مصباح الدین اتمانی پرعزم ہے کہ مستقبل میں بھی قبائلی عوام کی فلاح و بہبود کے لیے آواز اٹھاتیں رہیں گے۔