ذوالفقارعلی بھٹو کی پھانسی کا فیصلہ درست تھا یا نہیں؟ سپریم کورٹ نے صدارتی ریفرنس پر دس مارچ سے پہلے صدارتی ریفرنس پر رائے دینے کا عندیہ دے دیا۔
ذوالفقار بھٹوکی پھانسی کیخلاف صدارتی ریفرنس پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی سربراہی میں 9 رکنی بینچ نے سماعت کی۔ عدالتی معاونین جسٹس ریٹائرڈ منظور ملک ، اعتزاز احسن اور بلاول بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل مکمل کر لیے۔
عدالتی معاون جسٹس (ر) منظور ملک نے ذوالفقار علی بھٹو کیخلاف گواہان کے بیانات میں تضاد کی نشاندہی کرتے ہوئےکہا کہ انہیں بطور شہادت تسلیم ہی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
بلاول بھٹو کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے جسٹس نسیم حسن شاہ کے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے کہا فیصلہ دباو میں کیا گیا۔چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا انٹرویو میں کہیں واضح طور پر کہا گیا کہ سزا غلط دی؟ ہاں یا نہ میں بتائیں۔اس پر فاروق نائیک نے کہا ایسا نہیں کہا گیا۔
یہ بھی پڑھیں:۔ذوالفقارعلی بھٹو صدارتی ریفرنس میں دو عدالتی معاونین نے دلائل مکمل کر لیے
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیئے ابھی تک سمجھ نہیں آ رہا کہ ریفرنس میں کیا قانونی سوال اٹھایا گیا ہے، عدالت کو اپنی غلطی سدھارنے میں کوئی عار نہیں لیکن طریقہ کار تو بتائیں۔ احمد رضا قصوری نے تجویز دی کہ اگر قانونی سوال موجود نہیں تو ریفرنس ترمیم کیلئے صدر کو واپس بھیجا جائے۔چیف جسٹس نے کہا ک ریفرنس میں سوال قانونی ہے یا نہیں اس کا جائزہ لیا جا سکتا ہے۔
عدالتی معاون اعتزاز احسن نے دلائل کے دوران ذوالفقار علی بھٹو کیلئےان کے دوست کی جانب سے رحم کی اپیل صدر کو بھیجنے کا تذکرہ کیا تو چیف جسٹس نے کہا جب بھٹو نے خود کوئی رحم کی اپیل نہیں کی تو آپ اسے کیوں پڑھ رہے ہیں؟ رضا ربانی بولے ان کیلئے بھی اعتزاز احسن کے دلائل سے اتفاق کرنا مشکل ہے۔
چیف جسٹس نے ایک موقع پر یہ ریمارکس بھی دیئے کہ کوئی امریکی عدالت کا حوالہ لے آتا ہے کوئی کچھ۔ ہماری بھی ایک تاریخ ہے۔اس کیس میں اسلامی پہلو پر بھی کچھ بتایا جائے ۔
اسلام کی بات سب کرتے ہیں مگر جب ہم کیس لگائیں کوئی اس پر معاونت نہیں کرتا۔ جسٹس سردار طارق مسعود کی ریٹائرمنٹ سے پہلے فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔ فریقین آئندہ سماعت پر دلائل مکمل کریں۔سماعت چار مارچ تک ملتوی کر دی گئی۔