مردم شماری کے مطابق بہاولپور میںایک ہزار سے زیادہ خواجہ سرا موجود ہیں لیکن جب بھی انتخابی وقت آتا ہے خواجہ سراؤں کے بارے میں مختلف پلیٹ فارمز پر بات تو کی جاتی ہے لیکن انکے مسائل کے حلاور ووٹ کے بنیادی حق کے بارے میں عملی اقدامات نا ہونےکے برابر ہیں۔۔
گزشتہ جنرل الیکشن میں جب پہلی بار ہم ووٹ دینے گئےتووہاں پر ہمیں عجیب نظروں سے دیکھا گیا جیسے ہم کسی دوسرے سیارے کی مخلوق ہوں جبکہ مختلف سیاسیپارٹیوںکی جانب سے عجیب و غریب ناموں سے پکارا گیاآوازیںکسی گئیں تالیاں سیٹیاں بجائی گئیں ہمارا مذاقاڑایا جاتارہا۔
مردوں کی لائن سےنکل کر اگر خواتین کی لائن میںکھڑےہوئے تو خواتین کو اعتراضات ہوتے ہیں کہ یہ یہاں کیوں کھڑے ہیں، یہ کہنا ہے بہاولپور کی صاحبہ جہاں کاجو کہ ایک ٹرانس جینڈر ایکٹویسٹ ہیں۔ صاحبہ جہاںکہتی ہیںکہ الیکشن سے ہمیں دور رکھا گیا ہے۔ کورٹ کےفیصلےکے باوجود نادرا نے ہمارے شناختی کارڈ نہیں بنا کردیے۔ دوسرا یہ خواجہ سراؤں کی تعداد کو کم گنا جاتا ہے۔ خواجہ سرا کمیونٹی اس سال الیکشن میں باہر نہیں آسکےگے کیونکہ ان کا نہ شناختی کارڈ بنا نہ ووٹ کااندراج ہوااس سب کی ذمہ دار حکومت پاکستان ہے۔ کسیبھیسیاسی پارٹی کی جانب سے جنرل انتخابات میں ٹکٹتودور کی بات وہ ہمارا نام سننا بھی پسند نہیں کرتے ہیں۔
گزشتہ الیکشن میں خواجہ سرا کو جگہ دینا ووٹنگ کےلیےالگ بوتھ ہونا اس قسم کی کوئی چیز کا انتظام ہرگزنہیں کیا گیا تھا پولنگ اسٹیشن پر ۔ کوئی تیسری لائن موجودنہیں تھی۔ کوئی اہمیت نہیں دی گئی تھی۔ اس کےعلاوہ بہت مذاق اڑایا جا رہا تھا کہ آپ کس لائن میں کھڑی ہیں۔ کچھ سیاسی جماعتوں نے سختی سے کہہ دیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ کیوں بات کر رہی ہیں۔ آپ کیوں آئی ہیں یہاں پر اور آپ کا کیا کام ہے ہم ریاستی طور پر فیل ہوئےہیں اس الیکشن میں کوئی بھی اصطلاحات نہیں لے کر آئے ہیں۔ پولیس کی طرف سے بھی کوئی بہتر ایکشن نہیںلیےہیں۔ ان پانچ سالوں میں کچھ کام نہیں کیا گیا کوئیقانون سازی نہیں کی گئی۔ ہمیں تحفظات ہیں ہمیںسیکیورٹی فراہم کی جائے۔ یہاں ذہنی طور پر ٹرانس کوکوئی قبول نہیں کرتا ہے کہ ٹرانس آپ کے مد مقابل کھڑا ہےاور وہ الیکشن لڑ رہا ہے۔ جب تک ہم آپ کے سامنے بھیک مانگےآپ کے سامنے ہاتھ پھیلائے اس پوزیشن پر آئے کہ آپ ہم پرترس کھائے اگر ہم برابری کی بات کرتے ہیں اگر آپکا پاوراور پوزیشن والا وہی مائنڈ سیٹ ہے تو ہمیں آپ کبھی بھی قبول نہیں کریں گے۔ ٹرانس جینڈر آپ کے برابر آپکےساتھ اپنا ووٹ دے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ویسے بھی پاکستان کی سیاست میں جب اپوزیشن لیڈر اورجماعت کو بہت ہی نا مناسب الفاظ سے پکارا جاتا ہے ہمیں بھی اسی قسم کے رویوں کاسامنا ہے یہ خسرے، ہیجڑے، چھکے ہیں تالی مار کر مذاق اڑانا لوگوں کو یہ بتانا کہ ٹرانس جینڈر کمزور ہے۔ ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو ہمیشہ گالی دے کر ایک کمزور انسان کے طور پر پیش کیا گیا ہے۔ جب آپ اس طرح کا رویہ رکھےگے تو کون آئے گا سامنے۔ ابھی تک یہ مسائل حل نہیں ہوسکیں ہیں جب الیکشن ہونےوالے ہوتے ہیں تو ہر کسی کواپنی پڑی ہوتی ہے وہ کسی نہ کسی طرح سے کیسے بھی جیت جائے۔ ان کے مطابق خود کو عوامی نمائندہ کہنےوالے کبھی ٹرانس جینڈر سے نہیں ملے اوراس پر کچھ سیاستدان فخر بھی کرتی ہیں آپ پبلک ایشوزسے آشنا ہی نہیں ہے۔ مذہبی جماعتیں، سیاسی جماعتیں میڈیا کے لوگکوئی بھی ساتھ نہیں دے رہا تھا۔ ہمارےپاس گنے چنےالائنس موجود ہے مین اسٹریم میڈیا پر بیٹھےگے آپ یہ بات نہیں کرنی آپ نے اپنے جینڈر کے بارےمیں بات نہیںکرنا سینسر شپ بات کرنی ہوتی ہے اس کےبعد کسی مفتیمولوی یا ایسے فرد کو بیٹھا دیتے ہیں انکے سامنے بات کریں ہمیں اصل میں انسانی حقوق چاہیےاور کچھ نہیںہے۔
صاحبہ نے مزید کہا کہ میڈیا کا کردار اور شعور اجاگرکرنے کی ضرورت انتخاب میں صاحبہ کا خیال ہے کہ میڈیااہم کردار ادا کر سکتاہے۔ جو ہم نے تیاریاں کرنی تھیپچھلے پانچ سالوں میں وہہم نے نہیں کی۔ ریاست کی طرفسے اور دیگر اداروں کیطرف سے۔ میڈیا ایک ایسا پلیٹ فارم ہے خاص طور پرسوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کچھ ایسے اشتہارات میڈیا کیمپئن نگران حکومت کی طرف سےاور سیاسی پارٹیوں کی طرف سے چلائے جائیں اور اس میں طریقہ کاربتایا جائے ٹرانس جینڈر کے رائٹس ہیں اگریہ پولنگ اسٹیشن پر آتے ہیں تو ان کو عزت دی جائے۔ پولنگ اسٹیشن پر مذاق یا تماشا بننے سے لوگ ڈرتے ہیں۔ انہیں عزت دیں ان کو تمام حقوق فراہم کیے جائے ان کو لائن میں مت کھڑا کریں حق رائے دہی استعمال کرنے میں مدددیں آگاہی کے پروگرام کا انعقاد کرنا بے حد ضروری ہے۔
ان کی طرح خوبصورت کا کہنا ہے کہ ہمارے شناختی کارڈہی جب نہیں بنیں گے توہم بھلاالیکشن کا حصہ کیسے بنسکتے ہیں۔ ایک سنجیدہ نوعیت کا مسئلہ ہے اگر شناختی کارڈ بنوانے جاتے ہیں تو یہ بھی کہا جاتا ہے اپنا میڈیکل سرٹیفیکٹ لے کر آئے کیا اس معاشرے میں لڑکا لڑکی اپنامیڈیکل سرٹیفیکٹ جمع کراتےہیں نہیں نا پھر ہمارے ساتھ ایسا رویہ کیوں رکھا جا رہاہے؟
ان کے مطابق ووٹر رجسٹریشن ووٹر رجسٹریشن کا عملتب ہوتا جب ہمارے شناختی کارڈ بنے ہوتے۔ ان کی آخری تاریخ جو کہ گزر گئی ہے۔ اور ہمارے نہ شناختی کارڈ بنےاور نہ ہی ووٹر رجسٹریشن کا عمل مکمل کیا جا سکا۔ سب کچھ نادرانے روکا ہوا ہے۔ الیکشن میں جب سے بات چلی ہے کہ ہم حصہ لیں گے تو مختلف سیاسی جماعتوں کیجانب سےہمارے اوپر عجیب غریب قسم کے جملے کسےجاتے ہیں۔ غلط ناموں سے ہمیں پکارا جاتا ہے کہا جاتا ہےکہ اب تملوگ ہماری برابری ہمارا مقابلہ کرو گےاسصورتحال میں بتائیں ہم کیسے الیکشن لڑ سکتے ہیں؟ ہم خواجہ سرا ہیں لوگ کہتے ہیں یہ اصلی خواجہ سرا نہیںنقلی اب اصلی اور نقلی کے فرق کو کیا کرنا ہے انہوں نے کیاخواجہ سراہونا کوئی مس ورلڈ کا خطاب حاصل کرنے کےبرابر ہوتا ہےیا پھر پرائم منسٹر کا پرسنل اسسٹنٹ بنتا ہےوہ کچھ بھی نہیں ہوتا ہے لیکن بس لوگوں کے جملے دل کومزید جلا دیتےہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ الیکشن میں کچھ خواجہ سراووٹ دینے گئے بھی تھے وہ بھی اس دفعہ ووٹ ڈالنے نہیں جانا چاہتے انکا کہنا ہے کہ پولنگ والے دن کی مشکلاتسب سے پہلے تو ہمارے وجود کو تسلیم نہیں کیا جاتا ہےدوسرا یہ کہ اگر ہم پولنگاسٹیشن پر پہنچ جاتے ہیں تو یہ ہمیں مردوں کی لائن میں کھڑا کر دیتے ہیں جب تک ووٹکاسٹ نہ ہو ان کی نگاہوں اور جملوں کا سامنا رہتا ہےتمسخر اڑایا جاتا ہے۔
پنکی کا کہنا ہے کہ سیاسی جماعتوں کو اپنے منشور میں حلقوں میں جلسوں میں ان کے حقوق پر بات کرنے کی اشدضرورت ہے۔ آپ کی گنتی کی ہی تین چار پارٹیاں ہیںجونیشنل لیول پر ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی ہے پاکستانمسلملیگ نون اور تحریک انصاف پاکستان ہے اور جماعت اسلامی ہے تین سے چار جلسوں کے اندر ٹرانسجینڈررائٹسکو برابر افراد کے طور پر پیش کرنے کی ضرورت ہے۔ اسسے ٹرانس کمیونٹی انکریج ہوگی ان کاخوف ختم ہو گاانہیں اعتماد ملے گا۔ ابھی ایسا بھی نہیںہے دو ہزار 24 کے الیکشن ٹرانس جینڈر بالکل بھی حصہ نہیں لیے سکیںگے۔ میڈیا کا بہت بڑا کردار ہے سیاسی جماعتوں کا کردارہونا چاہیے تھا سماجی تنظمیوں کو ہاتھ ہونا چاہیے۔
وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے مطابق خواجہ سرا اپنی جنس تبدیل نہیں کر سکتے اور خواجہ سرا خود کو مردیاعورت نہیں کہلوا سکتے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ حکومت ایسے افراد کو طبی، تعلیمی اور معاشی سہولیات فراہم کرنے کی پابند ہے، اسلام خواجہ سراؤں کو تمام انسانی حقوق فراہم کرتا ہے اور حکومت انہیں تمام حقوق دینے کی پابند ہے۔ فیصلے کے مطابق جنس کا تعلق انسان کی بائیولاجیکل سیکس سے ہوتا ہے، نماز، روزہ، حج سمیت کئی عبادات کا تعلق جنس سے ہے، جنس کا تعین انسان کی احساسات کی وجہ سے نہیں کیا جا سکتا، اسلام میںخواجہ سراؤں کا تصور اور اس حوالے سے احکام اتموجودہیں۔
فیصلے میں کہا گیا کہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کیسیکشن 2 این شریعت کے خلاف نہیں، خواجہ سرا تمام بنیادوں حقوق کےمستحق ہیں جو آئین میں درج ہیں، خواجہ سراؤں کی جنسکی تعین جسمانی اثرات پر غالب ہونے پر کیا جائے گا۔ جسپر مرد کے اثرات غالب ہیں وہ مرد خواجہ سرا تصور ہو گااور جس پر عورت کے اثرات غالب ہوں گے وہ خاتون خواجہسرا تصور ہو گا۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا ہے کہ شریعت کسی کونامرد ہو کر جنس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتی، جنس وہی رہ سکتی ہے جو پیدائش کےوقت تھی۔ وفاقی شرعی عدالت کا کہنا ہے کہ جسمانی خدو خال کے مطابق کسی کو مردیا عورت نہیں کہا جاسکتا، جسمانی خد و خال اور خودساختہ شناخت پر کسی کوٹرانس جینڈر قرار نہیں دیاجاسکتا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سیکشن 7 میں مرضی سے جنس کا تعین کر کے وراثت میں مرضی کا حصہ لیاجاسکتا تھا، وراثت میں حصہ جنس کے مطابق ہی مل سکتا ہے، مرد یاعورت خود کو بائی لاجیکل جنس سے ہٹ کر خواجہ سراکہے تو یہ غیر شرعی ہو گا۔ شریعت کورٹ نے ٹرانسجینڈرایکٹ کی سیکشن ایف ٹو بھی خلاف شریعت قرار دے دی، عدالت نے ٹرانسجینڈر ایکٹ کے تحت بننے والے رولز بھی غیر شرعی قرار دے دیے، جس میں کہا گیا کہ غیرشرعی قرار دی گئی دفعات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔
صاحبہ کا کہنا ہے کہ مسئلہ یہ ہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان یا آپ کاالیکشن کا عملہ آپ کا میڈیا یہ جان بوجھ ک یہ تاثر نہیں دیتے کہ جب بھی آپ الیکشن کمیشن کے پاس بیٹھے وہ رونا روئے گے کے ہمارے پاس ریسورس نہیں ہے۔ فنانس کےحوالے سے بھی ہیومن ریسورس کےحوالے سے بھی وہ کہتے ہیں ہمارے پاس لوگ نہیں ہیں۔ جب سے آٹھ فروری کوالیکشن کا اعلان کیا گیا ہے۔ اسکول کی عمارتیں کم ہےہمارے پاس عملہ کم ہے۔ اسکول نہیں توہم کہاں پر ووٹنگ کرائیں گے ہمارے پاس کیا کیمونٹی سینٹرز نہیں ہے آپ کےپاس صلاحیت نہیں ہے اس میں جوآپ کا پرائم ٹائم میڈیا ہے اس کا اہم کردار ہے۔ بجائے اسکے پرائم ٹائم میں وہی لڑائی جھگڑے اور دیگر چیزیںدکھائے۔ کس نے موٹروے بنادی کس نے آئی ایم ایف کوانکار کیا کس نے بے نظیر انکمسپورٹ پروگرام دیا انچیزوں سے نکل کر ہم اگر اصلاحی شوز پر آئے سوسائٹی میں اہم ایشوز کو اجاگر کریں تواس سے بہت بڑا فرق پڑناہے۔ ان کو ٹرسٹ پر ووٹ ملے گا۔ آپ کے ٹی وی چینل کاایک گھنٹہ ٹرانس جینڈر کو پروگرام میں بیٹھا دیں۔
دوسری اہم چیز ہے یوتھ کا کردار ہے یوتھ کو بزی کرنے کےمختلف طریقہ کرے اسکولوں میں کالج وہ یونیورسٹیز میں ہمارے پاس کیا مسائل ہیں ٹرانس جینڈر کواصل میں کنمسائل کا سامنا ہے ان کو سمجھایا جاسکیے وہاں پر بھیجانے کی اجازت نہیں دی جاتی، پہلے سیاسی جماعتوں کوکردار ادا کرنا چاہیے وہ ہر فورم پر بات کریں۔
ووٹرز کو موبالائز کریں، ٹرانس جینڈرکی زندگی کو کسانداز میں بدلیں گے کیا تبدیلی آئے گیکتنوں کو اسکالرشپ دیں گے اور جاب کوٹہ کتنا ہوگا۔ تمامچیزوں میں انکو شامل کرنا ہو گا تب جاکے ہمارے مسائلحل ہوسکیں اورہمیں لگے گا کہ اب ہمیں ہمارے حقوق ملناشروع ہوگئے ہیںیہ تبھی ممکن ہوسکے گا جب ہمیں ووٹ کاٹھیک طریقےسے استعمال کرنے دیا جائے گا ہمارے وجود کومانا جائےگا۔
اس حوالے سے بہاولپور کے سیاستدانوں سے بات کی گئیتو ایم این اے کا الیکشن لڑنے والی شازیہ نورین کا کہنا ہےکہ خواجہ سرا ہماری سوسائیٹی کا سب سے پسا ہوا اورمعصوم طبقہ ہے جسے ہر بار اگنور کردیا جاتا ہے لیکن ہمنے انکے لئے انٹرپورنیورشپ کا پلان بنایا ہے پہلے بھی انکے لئے کام کررہے ہیں اگر ہماری حکومت آگئی تو سب سےپہلے انکے لئے کام کرینگے ہم چاہتے ہیں کہ چوکوںچوراہوں پر مانگنے کی بجائے خواجہ سرا اپنا چھوٹاکاروبار کریں تاکہ آئندہ آنے والے وقت میں اپنے حقوق کیجنگ لڑ سکیں۔۔
جماعت اسلامی کے رہنماء کا کہنا ہے کہ خواجہ سراؤں کامسئلہ بہت اہم ہے اگر ہم اس کمیونٹی کو اگنور کرینگے توہم زیادتی کرینگے موقع ملا تو سب سے پہلے ان کی اپنی شناخت بنائین گے اسمبلی میں بل پیش کرکے انکا ووٹ اورشناختی کارڈ کا مسئلہ حل کروائیں گے چاہتے ہیں کہ اسطبقے کی اپنی پہچان ہو تاکہ معاشرے میں ٹھیک طریقےسے زندگی گزار سکیں جہاں تک انکے الیکشن لڑنے کیبات ہے انکا حق ہے اگر انھیں لگتا ہے کہ الیکشن لڑسکتیہیں تو ضرور آئیں لیکن اس سے پہلے ہمیں اپنےعوام کوشعور دینا ہوگا۔
بہاولپور میں خواجہ سراؤں کے ان مسائل کے حوالے سےکئی بار الیکشن کمیشن سے رابطہ کیا گیا لیکن بار ہاپوچھنے کے باوجود کوئی جواب نہیں دیا گیا۔۔