ایک سینئر امریکی سفارت کار نے کہا کہ امریکا چین کو اس بحری ٹاسک فورس میں شامل کرنے کا خواہاں رہا ہے جس کا اعلان اس ہفتے حوثیوں کے تجارتی جہازوں پر حملوں کے جواب میں کیا گیا تھا۔
عرب میڈیا کے مطابق ٹاسک فورس پر ہونے والی گفتگو سے واقف حکام نے بتایا کہ بعد میں مزید ممالک کو شامل کیے جانے کی توقع ہے۔ عرب نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے سینئر امریکی سفارت کار نے کہا کہ چینیوں نے ہمیں انکار نہیں کیا یہ بہت بڑی بات ہوگی اگر ہم چینیوں کو دستخط کرنے پر آمادہ کر سکیں۔
چین کی شرکت کے بارے میں سوال پر محکمۂ خارجہ کے ترجمان میٹ ملر نے کہا واشنگٹن حوثیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے بیجنگ کے تعمیری کردار کا خیرمقدم کرے گا۔ ملر نے یہ بھی کہا کہ سکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن نے اپنے چینی ہم منصب سے ملاقات کے دوران حوثی حملوں سے امریکہ، چین اور ہر دوسرے ملک کے مفادات کو نقصان پہنچانے کا معاملہ اٹھایا۔
خیال رہے کہ امریکی وزیرِ دفاع لائیڈ آسٹن نے پیر کو آپریشن پراسپیریٹی گارڈین کا اعلان کیا جو ان کے مطابق بحیرۂ احمر میں یمن سے "انجام سے بے پرواہ حوثی حملوں" کے جواب میں تھا۔
بحری ٹاسک فورس میں شامل ہونے والے ممالک میں برطانیہ، بحرین، کینیڈا، فرانس، اٹلی، ہالینڈ، ناروے، سیشلز اور اسپین شامل ہیں۔ تاہم امریکہ نے بیجنگ کی شمولیت کے حوالے سے امید کی تھی کہ چینی یمن کے حوثیوں پر اپنے حملے روکنے کے لیے دباؤ ڈال سکیں گے۔
واضح رہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان کئی مہینوں تک فوجی تعلقات منقطع رہے جب چین دیگر معاملات کے علاوہ امریکہ کی پالیسی اور تائیوان کی حمایت سے عاجز آ گیا۔ لیکن دونوں ممالک نے گذشتہ ماہ صدر جو بائیڈن اور چینی صدر شی جن پنگ کے درمیان ملاقات کے دوران باہمی فوجی تعلقات کو دوبارہ شروع کرنے پر اتفاق کیا تھا۔