فرانسیسی ارکان پارلیمنٹ کی جانب سے متنازعہ امیگریشن اصلاحات کی منظوری دے دی گئی۔
برطانوی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق فرانسیسی پارلیمنٹ نے کئی مہینوں کی سیاسی کشمکش کے بعد فرانس کی امیگریشن پالیسی کو سخت کرنے کے لیے قانون سازی کی ہے۔
ترمیم شدہ بل کو فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی پارٹی اور فرانسیسی پارلیمنٹ کی ڈپٹی میرین لی پین کی پارٹی دونوں کی حمایت حاصل تھی۔
بائیں بازو کی جماعتوں نے میکرون پر انتہائی دائیں بازو کو مراعات دینے کا الزام لگایا۔
اس سے قبل پچھلے ہفتے نیشنل ریلی ( این آر ) کے ساتھ ساتھ بائیں بازو کی طرف سے پارلیمنٹ نے بل کا ایک سابقہ مسودہ مسترد کر دیا تھا جس کے جواب میں حکومت نے اس بل کو دوبارہ تیار کیا اور اس کی کچھ شقوں کو مزید سخت بنایا گیا ہے۔
نئی اصلاحات سے تارکین وطن کے لیے خاندان کے افراد کو فرانس لانا مزید مشکل ہو جائے گا جبکہ بل حراستی مراکز میں نابالغوں کو حراست میں رکھنے پر بھی پابندی عائد کرتا ہے۔
ڈپٹی پارلیمنٹ لی پین نے ترمیم شدہ بل کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے انتہائی دائیں بازو کی ’’ نظریاتی فتح ‘‘ قرار دیا ہے، لیکن بائیں بازو والوں کا کہنا تھا کہ میکرون انتہائی دائیں بازو کو فعال کر رہے ہیں۔
سوشلسٹ پارٹی کے رہنما اولیور فاؤر نے کہا کہ تاریخ ان لوگوں کو یاد رکھے گی جنہوں نے اپنے عقائد کو دھوکہ دیا۔
بل کی منظوری کے لئے ووٹنگ کے عمل نے حکومتی اتحاد کے اندر تقسیم کو بے نقاب کردیا، 27 ارکان پارلیمنٹ نے مخالفت میں ووٹ دیا جبکہ 32 غیر حاضر رہے۔
رپورٹ کے مطابق وزیر صحت اورلین روسو نے ووٹنگ کے بعد استعفیٰ دے دیا اور کہا جا رہا ہے کہ کئی اور وزراء مستعفی ہونے کے راستے پر ہیں۔
تاہم وزیراعظم الزبتھ بورن کا کہنا ہے کہ صدر کو کوئی استعفیٰ پیش نہیں کیا گیا۔
انسانی حقوق کے گروپوں نے نئی اصلاحات کو فرانس میں دہائیوں میں سب سے زیادہ رجعت پسند امیگریشن قانون قرار دیا ہے۔