سپریم کورٹ کے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس شوکت عزیز صدیقی کی برطرفی کے خلاف درخواست کی سماعت کے دوران ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ہم طریقے سے چلیں گے، شوکت صدیقی 62 سال سے اوپر ہو چکے واپس بحال تو نہیں ہو سکتے، سسٹم میں شفافیت لا رہے ہیں 10 سال پرانے کیسز مقرر کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ جنرل باجوہ کا آپ نے فریقین میں پہلا نام لکھا، جنرل باجوہ سے تو الزامات کی کوئی کڑی جڑ ہی نہیں رہی، یہ تو سنی سنائی ہے کہ جنرل باجوہ کے ماتحت تھے تو انہی کی ہدایت پر کیا ہوگا، لوگ تو آج کل الزامات بھی لگا دیتے ہیں کسی کا نام لے کر کہ اس نے بھیجا ہے، جنرل فیض حمید کی حد تک تو ٹھیک ہے براہ راست الزام ہے۔
جسٹس قاضی فائز نے استفسار کیا کہ جنرل باجوہ کا کہاں براہ راست نام آتا ہے؟ عرفان رامے کا نام بھی غیرمتعلقہ ہے۔
چیف جسٹس کی جانب سے آج کی سماعت کا حکنامہ لکھوایا گیا کہ جس کے تحت سپریم کورٹ نے جنرل ریٹائرڈ فیض حمید ، سابق چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ انور کاسی ، بریگیڈیئرعرفان رامے اور سابق رجسٹرار سپریم کورٹ ارباب محمد عارف کو نوٹس جاری کیا گیا۔جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ کو نوٹس جاری نہیں کیا گیا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے کہا گیا کہ سنجیدہ نوعیت کے الزامات پر فیض حمید و دیگر کو جواب کا موقع دیا جاتا ہے، تین افراد جنہیں شوکت عزیز صدیقی نے فریق بنایا تھا ان کا براہ راست تعلق نہیں ، جنرل ریٹائرڈ قمر جاوید باجوہ ، بریگیڈیئر طاہر وفائی اور بریگیڈیئر فیصل مروت کو نوٹسز جاری نہیں کیے گئے۔
عدالت عظمیٰ کی جانب سے فریقین کو ان پر عائد الزامات پر مبنی مواد بھی فراہم کرنے کا حکم دیا گیا اور کہا گیا کہ ایک ہفتے میں ایڈریس ملنے کے بعد فریقین کو نوٹس ارسال کئے جائیں گے۔
بعدازاں، سپریم کورٹ نے شوکت عزیز صدیقی کی درخواست پر سماعت غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دی۔