سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں افواج پاکستان نے مشرقی پاکستان کے مختلف محاذوں پر بھارتی فوج اور دہشتگرد مکتی باہنی کے خلاف دفاعی جنگ میں دلیری اور شجاعت کے لازوال کارنامے سر انجام دیے۔
پاک فوج کی بہادری کی کئی ان دیکھی اور ان سنی داستانوں میں سے ایک داستان کیپٹن احسن ملک (ستارہ جرأت) کی بھی ہے جنہوں نے مشرقی پاکستان کےعلاقے کمال پور میں جوانوں کی قلیل تعداد اور کم اسلحہ کے باوجود بھارتی فوج کو ناکوں چنے چبوائے۔
سنہ 1971 کی پاک بھارت جنگ میں بھارتی فوج کے بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کو شمال میں آسام کی جانب سے مشرقی پاکستان پر حملہ کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی تو اس منصوبے کے راستے میں پہلی رکاوٹ مشرقی پاکستان میں کمال پور کی شمالی سرحد پر موجود پاکستان آرمی کی چوکی تھی، جہاں ایک نوجوان افسر کیپٹن احسن ملک دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے میں جتے ہوئے تھے۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کے زیر کمان توپ خانہ کی بھاری تعدادکے علاوہ مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی ایک بڑی تعدادبھی دستیاب تھی، ایسے میں کمال پور کی اس چھوٹی سی چوکی پر قبضہ کرنا بظاہرچند گھنٹوں کا کام تھا۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کو بھارتی فضائیہ کی مدد بھی حاصل تھی جبکہ کیپٹن احسن ملک کے پاس صرف 70 سپاہی اور اتنے ہی نیم تربیت یافتہ رینجرز اور رضاکاروں کے علاوہ صرف تین مارٹر اور انتہائی کم تعداد میں اسلحہ و ایمونیشن تھا۔
بھارتی فوجیوں نے 22 اکتوبر 1971ء کو مکتی باہنی کے دہشتگردوں کی مدد سے اس چوکی پر حملہ کیا، اس حملے میں بھارتی فوج کو منہ کی کھانا پڑی اور وہ 9 لاشیں چھوڑ کر واپس بھاگ گئے، اس کے بعد دوسرا بھارتی حملہ 14 نومبر کو کیا گیا جس میں دوبارہ ناکامی ہوئی۔
کیپٹن احسن ملک جو کرنل رینک پر ریٹائر ہوئے اپنی آب بیتی میں لکھتے ہیں کہ 15 نومبر کو ہمارے چند فوجی پٹرولنگ کی غرض سے نکلے تودشمن نے ان پر گولیوں کی بوچھاڑ کردی، جس سے احساس ہوا کہ چوکی پر قبضہ کرنے کی ابتدائی کوششوں میں ناکامی کے بعد بھارتی فوج نے ان کی چوکی کودوبارہ گھیرے میں لے لیا ہے۔
بریگیڈیئر ہردیو ابتدائی ناکامی کے بعد حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوئے،ایک بار پھر انھوں نے چوکی کا مکمل محاصرہ کر لیا اور توپ خانے سے بھاری بمباری کا آغاز کر دیا۔
بریگیڈیئر ہردیو کا مقصد یہ تھا کہ چوکی پر حملے میں مزید جانی نقصان کے بجائے پاکستانی فوجیوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالا جائے اور ان تک کسی قسم کی کمک پہنچنے کے امکانات کو ختم کر کے انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے۔
بھاری بمباری کے باوجود کیپٹن احسن ملک اور کے جوان ’نفسیاتی دباؤ‘ کا شکار نہ ہوئے تو 21 نومبر کو بھارتی فوج نے بھرپور حملہ کیا، اس باربھارتی فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا،کچھ دیر بعد ایک دوسرا حملہ بھی اسی طرح ناکام ہوا۔
احسن ملک کے مطابق اگلی صبح انھوں نے چوکی کے آس پاس 28 لاشیں گنیں جن میں سے ایک بھارتی کپتان بھی تھا، احسن ملک کے مطابق ان لاشوں کو بیماری پھیلنے کے ڈر سے رات کے وقت دفنا دیا گیا۔
پے درپے ناکامیوں کے بعد 30 نومبر کو کمال پور پر بھارتی فوج کی جانب سے ایک بڑا حملہ کیا گیا، اس بار کیپٹن احسن ملک نے دشمن کو زیادہ قریب آنے کا موقع دیا اور ان کے قریب آتے ہی فائر کھول دیئے، حملہ پسپا ہوا اور دشمن 20 لاشیں چھوڑ کر بھاگ نکلا۔
دو ہفتوں سے جاری لڑائی کے بعد کیپٹن احسن ملک کی چوکی پر ہر فوجی کے پاس فی رائفل 75 گولیاں، لائٹ مشین گن کے 200راؤنڈ اور 22 مارٹر گولے باقی بچے تھے۔
بھارتی فوج کی جانب سے کیپٹن احسن ملک کو سفید جھنڈا اٹھائے بھارتی فوج کے ذریعے تین بار ہتھیار ڈالنے کا پیغام دیا گیا اور تینوں بار کیپٹن احسن ملک نے جواب گولیوں کی بوچھاڑ سے دیا۔ دشمن بھارت کے بار بار حملوں کا منہ توڑ جواب دینے والے کیپٹن احسن ملک نے ثابت کیا کہ جذبہ ایمانی کی طاقت کے سامنے دشمن کے لاؤ لشکر کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔