افغانستان میں حکومتی نظام بدانتظامی کا شکار ہے۔ اقوام متحدہ کے مطابق طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے وہاں انسانی بالخصوص خواتین کے حقوق کی خلاف ورزیوں میں تشویش ناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔
اقوام متحدہ کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں عورتوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہے اور نہ ہی گھر سے نکل کر ملازمت کرسکتی ہیں۔ عورتوں پر انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ میں بھی کام کرنے پر پابندی ہے۔
رپورٹ کے مطابق افغانستان میں سول سوسائٹی، انسانی حقوق کے کارکنان، صحافیوں حتیٰ کہ پر امن احتجاج کرنے والوں کو بھی ناجائز گرفتار کیا جارہا ہے۔ نومبر 2022 میں طالبان حکومت نے اجتماعی پھانسی اور دیگر غیر انسانی سزائیں نافذ کیں جس کے بعد اپریل 2023 تک 74 مردوں، 58 خواتین اور دو لڑکوں کو سرعام کوڑے مارے گئے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں 85 فیصد سے زائد آبادی غربت کی نچلی سطح پر زندگی گزار رہی ہے مگر طالبان نے ان تک امداد کا پہنچنا بھی ناممکن بنادیا ہے۔ لیڈی ڈاکٹرز اور امدادی کارکنان پر پابندی کے باعث ملک بھر میں صحت کے حالات بھی انتہائی تشویشناک ہے۔