نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ کا کہنا ہے کہ افغان عبوری حکومت اچھی طرح جانتی ہے کہ ٹی ٹی پی کہاں کہاں موجود ہے۔ انہیں ہمارے حوالے کرنا ہے یا کارروائی کرنی ہے یہ فیصلہ کابل نے خود کرنا ہے۔
ایک انٹرویو میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ سیکیورٹی فورسز یا عام شہریوں پر حملے ہونگے تو پھر جواب بھی ملے گا ۔ دہشتگرد مذاکرات چاہتے ہیں تو غیر مشروط طور پر ہتھیار پھینکیں ۔ بات چیت کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ اس کے بعد ہوگا۔
انوارالحق کاکڑ نے کہا کہ بندوق کی نوک پرمذاکرات پرمجبور کریں گے یہ غلط فہمی دور کرلیں، پہلے ناجائزکام سے پیچھے ہٹیں پھرسوچاجائیگا مذاکرات ہو یا نہیں۔ ہتھیار اُٹھانے کا جواز سراسر ناجائز ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ہم مطلق مذاکرات سے قططاً انکارنہیں کررہے، کسی کاریاست سے مذاکرات کاارادہ ہےتوپہلے ہتھیار پھینکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ہمارے اور افغانستان کے قوانین بھی باقی دنیا جیسے ہونے چاہئیں، ہم نے افغانیوں کے ساتھ بہتر رویہ اختیار کیا ہے، غیرقانونی مقیم افراد کو واپس بھیجنے کی پالیسی اختیار کی ہے، ہم رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو واپس نہیں بھیج رہے۔
نگران وزیراعظم کا کہنا تھا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا تحفظ یقینی بناناہماری قانونی ذمہ داری ہے، چیئرمین پی ٹی آئی جیل میں جسمانی طورپربالکل محفوظ ہیں، حکومتیں کرمنل گروہ نہیں،الزامات لگانے سے پہلے10بارسوچیں، سابق وزیراعظم تمام الزامات کا سامنا کررہے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سابق وزیراعظم کی گرفتاری قانونی طورپرہوئی، سابق وزیراعظم کی گرفتاری نگران حکومت سے پہلے ہوئی۔ کیا نگران حکومت نے سابق وزیراعظم کو جیل میں ڈالا ہے؟ میں بھی فوجی تنصیبات پرحملہ کروں توملٹری ٹرائل ہوناچاہیے۔
انہوں نے کہا کہ ایک پارٹی کو اذیت اور دوسری کونوازا جارہا ہے یہ تاثرغلط ہے، پی ٹی آئی رہنما بھی اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئےہیں، دیگر جماعتیں اپنی سیاسی سرگرمیوں میں مصروف ہیں، یہاں اذیت پسند لوگ نہیں کہ چیئرمین پی ٹی آئی سے ذاتی بدلہ لینا ہے، قانون انہیں سزا کا مستحق ٹھہراتا ہے تو قوانین کے اندر سزادی جائے گی۔