سپریم کورٹ میں ریکوڈک منصوبے سے متعلق صدارتی ریفرنس پر جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے الگ الگ تفصیلی نوٹ جاری کر دیئے۔
خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے صدارتی ریفرنس پر 9 دسمبر 2022 کو مختصر متفقہ رائے دی تھی تاہم تاحال تفصیلی فیصلہ جاری نہیں ہوسکا۔
جسٹس یحییٰ آفریدی کی جانب سے 8 صفحات پر مشتمل تفصلی نوٹ جاری کیا گیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ ریکوڈک معاملے پر صدر کے سپریم کورٹ میں سے رائے کے سوال کا جواب نہیں دیں گے کیونکہ پالیسی معاملات کا اختیار انتظامیہ اور مقننہ کا ہے جبکہ سپریم کورٹ کا مشاورتی دائرہ اختیار آرٹیکل 186 میں واضح کیا گیا ہے۔
انہوں نے لکھا کہ سوال تھا کیا پبلک پالیسی وفاقی حکومت اور بلوچستان کو ریکوڈک معاہدے سے روکتی ہے ؟ اور یہ سوال قانونی نہیں، یہ معاملات ایگزیکٹو اور مقننہ پر چھوڑنے چاہییں کیونکہ عدالت کا کام پبلک پالیسی کے معاملات پر رائے دینا نہیں ہے، عدالت صرف پبلک پالیسی کے برخلاف ہونے پر روک سکتی ہے۔
پبلک پالیسی کی بدلتی تعریف نے عدالتی دائرہ اختیار کو بھی سیاسی کر دیا ہے، عدالتیں پہلے سیاسی معاملات میں پڑنے سے گریز کرتی تھیں۔
دوسری جانب جسٹس جمال خان مندو خیل نے 11 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ معاہدہ آئین اور قانون کے تحت کیا گیا اور خوش قسمتی سے پاکستان پر عائد ہونے والا 10 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ معاہدے کی صورت طے ہوا، منصوبے سے مقامی مزدوروں اور عوام کو فائدہ پہنچے گا اور انہی وجوہات کی بنا پر معاہدے کی توثیق کی اجازت دی۔
انہوں نے لکھا کہ غیرملکی سرمایہ کاری ایکٹ کا بلوچستان میں اطلاق صرف ریکوڈک کی حد تک ہوگا، معاہدے میں ماحولیاتی عنصر کو ملحوظ خاطر رکھا جائے اور حاصل ہونے والی رقم کا کچھ حصہ آنے والی نسلوں کیلئے مختص کیا جائے۔