قومی اسمبلی نے بھارت کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔
اسپیکر ایاز صادق کی زیر صدارت قومی اسمبلی کا اجلاس ہوا جس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پہلگام واقعہ کی سب نے مذمت کی ہے، وہاں سے بھارت کی الزام تراشی مناسب نہیں ہے، پاکستان نے غیر جانبدارانہ انکوائری کی پیشکش کی ہے اور سینیٹ اور قومی اسمبلی اس معاملے پر ایک ہے۔
اجلاس کے دوران قومی اسمبلی نے بھارت کے خلاف مذمتی قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی۔
قرارداد کا متن
قرارداد میں کہا گیا کہ ایوان تمام شکلوں میں دہشتگردی کی مذمت کرتا ہے، معصوم شہریوں کا قتل پاکستان کے اصولوں کےمنافی ہے، ایوان پہلگام حملے کو پاکستان سے جوڑنے کی بے بنیاد کوششوں کو مسترد کرتا ہے اور ایوان بھارتی حکومت کی منظم اور بدنیتی پر مبنی مہم کی مذمت کرتا ہے، سندھ طاس معاہدے کی یکطرفہ معطلی غیرقانونی عمل ہے اور ایوان یک طرفہ بھارتی اقدامات کی مذمت کرتا ہے جو واضح طور پر ایک جنگی عمل ہے۔
قرارداد خبردار کرتی ہے کہ پاکستان اپنی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع کرنے کے لیے مکمل طور پر قابل اور تیار ہے، بشمول واٹر دہشت گردی یا فوجی اشتعال انگیزی کے خلاف، جیسا کہ فروری 2019 میں بھارت کی بے پروائی کے جواب میں اس کی مضبوط اور بہادر کارروائی سے واضح ہوا اور بھارت کی جانب سے کسی بھی مہم جوئی کا جواب سخت، فوری اور فیصلہ کن ہوگا۔
پاکستان کے لوگ امن کے لیے پرعزم ہیں لیکن کبھی بھی کسی کو ملک کی خودمختاری، سلامتی، اور مفادات پر حملہ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے اور قرارداد مطالبہ کرتی ہے کہ بھارت کو مختلف دہشت گردی کے اعمال اور دیگر ممالک، بشمول پاکستان، کی سرزمین پر ہدف بنائے گئے قتل کے لیے جوابدہ ٹھہرایا جائے۔
قرارداد پاکستان کی کشمیری قوم کے لیے غیر متزلزل اخلاقی، سیاسی اور سفارتی حمایت کی تجدید کرتی ہے۔
اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا اظہار خیال
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پاکستان آج کہہ رہا ہے کہ یہ معاہدہ توڑنا جنگ کے مترادف ہوگا، سندھ طاس معاہدہ پاکستان کے حق میں تھا، ہٹلرکو روکنے چرچل جیسے مضبوط شخص کی ضرورت تھی، آج مودی کو روکنے کیلئے بانی پی ٹی آئی چاہیے۔
عمر ایوب کا کہنا تھا کہ پہلگام 450 کلومیٹر دور ہے ، اس واقعے سے پاکستان کا کیا لینا دینا ہے، ہم اس واقعے کی مذمت کرتے ہیں، پاکستان کبھی بھی اس قسم کے واقعات میں ملوث نہیں رہا، ہمارا واقعے سے تعلق نہیں تو تحقیقات کا حصہ کیوں بنیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مودی کو منہ توڑ جواب چاہیے ہوتا ہے پھر اس کو ہوش آتا ہے۔