سپریم کورٹ کے آئینی بینچ کے روبرو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا گیا۔ عدالت کا کہنا ہے کہ فیصلہ اسے ہفتے سنایا جائے گا۔ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے عدالتی استفسار پر بتایا کہ جناح ہاؤس حملے میں غفلت برتنے پر جبری ریٹائر کئے گئے افسران میں کور کمانڈر لاہور بھی شامل ہیں۔ جسٹس نعیم اختر اعوان نے اٹارنی جنرل کو نو مئی واقعات کے میرٹ پر بات کرنے سے روک دیا کہا آپ نو مئی واقعات کے سوالوں کا جواب نہیں دے سکیں گے، اس لیے بہتر اس پر بات نہ کریں۔
سپریم کورٹ میں جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ کے روبرو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف اپیلوں کی سماعت ہوئی۔
جسٹس مسرت ہلالی نے پوچھا کہ کیا لوگ جناح ہاؤس کا گیٹ پھلانگ کرگئے یا اندر سے کھولا گیا؟، اگر اندر سے کسی نے دروازہ کھولا تو ملی بھگت کا جرم بنے گا۔ اٹارنی جنرل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ میں اس بارے میں چیک کرنے کے بعد ہی بتاؤں گا کہ کیسے ہوا تھا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ جرم کی نیت سے ہی ہوا تھا؟، کیا نیت احتجاج ریکارڈ کرانے کی تھی یا حملہ کرنے کی؟، کیا ہوسکتا ہے نیت احتجاج کی ہو مگر معاملہ حد سے تجاوز کرگیا ہو؟، حد سے تجاوز نہیں کرنا چاہئے تھا مگر کیا گیا۔
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ 9 مئی کو جو کچھ ہوا وہ جرم ہی تھا۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب آپ غلط راستے پر چل پڑے ہیں، ہم نے 9 مئی واقعے کے میرٹ پر کسی کو بات نہیں کرنے دی، میرٹ پر بات کرنے سے ٹرائل اور اپیل میں مقدمات پر اثر پڑے گا۔
انہوں نے کہا کہ 9 مئی کی تفصیلات میں گئے تو بہت سے سوالات اٹھیں گے، 9 مئی پر اٹھنے والے سوالات کے جواب دینا شاید آپ کیلئے ممکن نہ ہو۔ جسٹس نعیم اختر افغان نے پوچھا کیا بغیر پنشن ریٹائر ہونے والے جنرل کور کمانڈر لاہور تھے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا جی بالکل، کور کمانڈر لاہور کو ہی بغیر پنشن ریٹائر کیا گیا۔
جسٹس نعیم اختر افغان نے سوال کیا کہ کیا کور کمانڈر لاہور ٹرائل کورٹ میں بطور گواہ پیش ہوئے ہیں؟۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ ٹرائل کورٹ سے جب اپیل آئے گی تو عدالت کو معلوم ہوجائے گا۔ جسٹس نعیم اختر نے ریمارکس دیئے کہ یہی تو بات ہے آپ جواب نہیں دے سکیں گے، بہتر ہے یہ باتیں نہ کریں۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ آئین میں ترمیم مشکل کام ہے لیکن 26 مرتبہ کی بھی گئی، آفیشل سیکرٹ ایکٹ میں ایسا کیا ہے کہ آسانی سے ہونیوالی ترمیم بھی نہیں کی جاتی۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ فوجی عدالتوں سے سزاؤں کیخلاف اپیلیں دائر ہوچکی ہیں، 86 مجرمان اپیلیں کرچکے، باقیوں کو اپیل دائر کرنے کے وقت میں رعایت دیں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ آج میں نے 45 منٹ مانگے تھے جن میں سے 25 منٹ عدالتی سوالات کے تھے، میں نے 20 منٹ صرف جسٹس جمال مندوخیل کیلئے رکھے تھے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ مجھے اپنا کوئی مسئلہ نہیں، ملک کے مستقبل کا سوچ رہا ہوں۔
ایک سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ پاک فوج کے 3 اعلیٰ افسران کو بغیر پنشن اور مراعات کے ریٹائر کیا گیا، جن میں لیفٹیننٹ جنرل، بریگیڈیئر اور لیفٹیننٹ کرنل شامل ہیں، پاک فوج کے 14 افسران کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا گیا، ناپسندیدگی اور عدم اعتماد کا مطلب ہے انہیں مزید کوئی ترقی نہیں مل سکتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا فوج نے کسی افسر کیخلاف فوجداری کارروائی بھی کی؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ فوجداری کارروائی تب ہوتی جب انہوں نے جرم کیا ہوتا، افسران کیخلاف محکمانہ کارروائی 9 مئی واقعہ نہ روکنے پر کی گئی۔ جسٹس جمال نے ریمارکس دیئے کہ آرمی ایکٹ واضح ہے محکمانہ کارروائی کے ساتھ فوجداری سزا بھی ہوگی۔
جسٹس حسن اظہر رضوی نے کہا کہ ذوالفقار بھٹو کی پھانسی کے وقت لوگ گرفتاریاں دیتے تھے، لوگوں نے خود کو آگ لگائی اور خود سوزیاں کیں، کسی نے بھی اس وقت املاک کو آگ نہیں لگائی۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرے والد نے خود بطور سیاسی کارکن کئی مقدمات بھگتے، کبھی کسی کے ذہن میں بھی نہیں آیا کہ عوامی املاک کو نقصان پہنچائیں۔
سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے اٹارنی جنرل کے دلائل مکمل ہونے پر کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا، عدالت نے کہا کہ مختصر فیصلہ اسی ہفتے کے دوران سنایا جائے گا۔