اٹلی کے دارالحکومت روم میں ایران اور امریکا کے درمیان جوہری پروگرام پر مذاکرات کا دوسرا دور اختتام پذیر ہوگیا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق یہ مذاکرات خوشگوار اور تعمیری ماحول میں ہوئے اور دونوں ممالک کے نمائندوں نے بات چیت کا سلسلہ جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔
ایرانی میڈیا نے بتایا کہ مذاکرات کا تیسرا دور اگلے ہفتے ہوگا تاہم اس کی تاریخ اور مقام کی تفصیلات ابھی واضح نہیں کی گئیں۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق یہ مذاکرات روم کے عمانی سفارتخانے میں ہوئے جہاں عمان کے وزیر خارجہ بدر البوسیدی نے ثالث کا کردار ادا کیا جبکہ ایرانی وفد کی قیادت وزیر خارجہ عباس عراقچی نے کی اور امریکی وفد کی سربراہی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف نے کی۔
مذاکرات کا بنیادی مقصد ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے تحفظات کو دور کرنا اور تہران پر عائد امریکی پابندیوں کے خاتمے پر بات چیت کرنا تھا۔
ایرانی میڈیا کے مطابق مذاکرات میں دونوں فریقین نے ایک دوسرے کے موقف کو سنجیدگی سے سنا اور تعمیری انداز میں پیش رفت کی۔
ایرانی موقف
ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بیقائی نے مذاکرات کے بعد کہا کہ ایران کا جوہری پروگرام مکمل طور پر پرامن ہے اور اس کا مقصد صرف شہری توانائی کے تقاضوں کو پورا کرنا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایران جوہری پروگرام پر عالمی برادری کے شکوک و شبہات دور کرنے کے لیے تیار ہے لیکن یورینیم افزودگی کا حق غیر مذاکراتی ہے۔
بیقائی نے زور دیا کہ تہران پر عائد غیر قانونی پابندیاں ختم ہونی چاہیے کیونکہ یہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے ناگزیر ہیں۔
امریکی موقف
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے مذاکرات سے قبل کہا تھا کہ وہ ایران کو جوہری ہتھیار بنانے کی اجازت نہیں دیں گے لیکن وہ ایک منصفانہ اور پائیدار معاہدے کے خواہاں ہیں۔
ٹرمپ نے ایران کے ساتھ مذاکرات کو تیزی سے آگے بڑھانے کی خواہش ظاہر کی لیکن انہوں نے یہ بھی کہا کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو ایران کے جوہری تنصیبات پر فوجی حملوں کا امکان موجود ہے۔
امریکی ایلچی وٹکوف نے مذاکرات کے دوران ایران سے یورینیم افزودگی کو 3.67 فیصد تک محدود کرنے کی بات کی جو 2015 کے جوہری معاہدے کی سطح ہے لیکن بعد میں انہوں نے کہا کہ ایران کو اپنا افزودگی پروگرام مکمل طور پر ختم کرنا چاہیے۔