فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کے خلاف اپیلوں پر سماعت کل تک ملتوی کردی گئی، وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث آج بھی جواب الجواب دلائل مکمل نہ کرسکے، عدالت نے کل ہر صورت دلائل مکمل کرنے کی ہدایت کردی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا سوال اتنا ہے کہ فوجی عدالتوں کو عدالتیں کہا جاسکتا ہے یا نہیں؟، اگر کہا جاسکتا ہے تو دوبارہ آرٹیکل 175 پڑھیں۔ خواجہ حارث نے کہا فوجی عدالتیں، عدالتیں ہی ہیں جو خصوصی دائرہ اختیار استعمال کرتے ہوئے فوجداری ٹرائل کرتی ہیں۔
فوجی عدالتوں سے متعلق کیس کی سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں 7 رکنی آئینی بینچ نے کی۔ وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل میں کہا اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ فوجی عدالتوں میں منصفانہ ٹرائل ہوتا ہے، لیاقت حسین کیس میں سپریم کورٹ قرار دے چکی کہ سویلین کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوسکتا ہے، فوجی عدالتوں میں مروجہ طریقۂ کار اور فیئر ٹرائل دونوں میسر ہوتے ہیں، فوجی عدالتوں میں مکمل انصاف کیلئے آفیسر باقاعدہ حلف لیتے ہیں۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اگر کوئی ملزم اپیل میں جاکر کہے اسے فیئر ٹرائل نہیں ملا تو کیا ہوگا؟، ریکارڈ اسے فراہم کیا نہیں جاتا وہ اپنی بات کیسے ثابت کرے گا؟۔ خواجہ حارث نے جواب دیا نو مئی کے 105 ملزمان کا فوجی عدالتوں میں ٹرائل ہوا، کسی ایک ملزم نے بھی آکر نہیں کہا اسے فیئر ٹرائل نہیں ملا۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا وہ ایسا کہتے تو پھر جاتے کہاں؟، لوگوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ کافی کچھ بتا چکے ہیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 50 سال سے ایک معاملہ چل رہا ہے، اب ہم سے پوچھا جارہا ہے اس میں اپیل ہو گی یا نہیں؟، ہمیں مشاورت کا وقت تو دیں، کیا مشاورت بھی نہ کریں؟۔
ان کا کہنا ہے کہ خواجہ حارث نے جو بھی کہا وہی ہمارا مؤقف ہے، ہم صرف اپیل سے متعلق عدالتی سوال کا جواب دیں گے۔