سندھ ہائیکورٹ نے کے ایم سی کو حکم دیا ہے کہ دو سال تک ریٹائرڈ بلدیاتی ملازمین کی پنشن ادا کرے گی، دو سال میں ٹاؤن میونسپل آفس میکنزم بنائیں گے۔ عدالت نے اس دوران ریٹائرڈ ملازمین کی فہرست دینے کا بھی حکم دیدیا۔
سندھ ہائی کورٹ میں ریٹائرڈ بلدیاتی ملازمین کی پینشن اور واجبات کی عدم ادائیگی کے کیس کی سماعت ہوئی، اس موقع پر ایڈیشنل چیف سیکریٹری سندھ، میئر کراچی مرتضیٰ وہاب اور سیکریٹری بلدیات عدالت میں پیش ہوئے۔
سندھ ہائیکورٹ نے حخم دیا کہ دو سال تک ملازمین کو پنشن کے ایم سی ادا کرے گی، دو سال میں ٹاؤن میونسپل آفس میکنزم بنائیں گے۔
عدالت عالیہ نے اس دوران ریٹائرڈ ہونے والے بلدیاتی ملازمین کی فہرست دینے کا حکم بھی دیدیا۔
دوران سماعت سیکریٹری لوکل گورنمنٹ نے بتایا کہ ٹاؤن کو یکمشت رقم ادا کی جاتی ہے، ٹاؤن اپنے اخراجات کو 4 حصوں تنخواہ، پینشن، ترقیاتی اخراجات و دیگر کی مد میں تقسیم کرتی ہے۔
جسٹس نثار احمد بھنبرو نے استفساد کیا کہ کے ایم سی عدالت کے آرڈر کا انتظار کیوں کررہی ہے؟، جس پر میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ ٹی ایم سیز خودمختار ہیں، الگ الگ جماعتوں کے پاس ٹی ایم سیز ہیں، میرا کوئی اختیار نہیں ہے۔
سیکریٹری بلدیاتی نے بتایا کہ کے ایم سی کے پاس سینٹرالائزڈ پنشن ادائیگی کا نظام موجود ہے، سندھ حکومت کے ایم سی کو پنشن کی ادائیگی کیلئے رقم دیتی ہے، سندھ حکومت ٹی ایم سی کو بھی ادائیگی کرتی ہے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے انکشاف کیا کہ بہت سے ملازمین دو تنخواہیں لے رہے ہیں، ہم نے ایسے ملازمین کیخلاف کارروائی کی ہے۔ عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت کچھ فنڈ دے، ٹاؤن کو اپنے فنڈز جنریٹ کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے، ٹاؤن کو سپروائز کرنے کی ذمہ لوکل گورنمنٹ ڈپارٹمنٹ کی ہے۔
میئر کراچی مرتضیٰ وہاب نے کہا کہ فنانس ڈپارٹمنٹ سے فنڈز ملتے رہنے تک کے ایم سی پینشن کی ادائیگی کرتی رہے گی۔ عدالت نے سیکریٹری بلدیاتی سے استفسار کیا کہ کیا ٹی ایم سی تنخواہ کی ادائیگی کررہی ہے؟۔ جس پر انہوں نسے بتایا کہ ٹی ایم سی تنخواہ ادا کررہی ہے، مسئلہ پنشن کی ادائیگی کا ہے۔
عدالت نے ایڈیشنل چیف سیکریٹری سے پوچھا کہ میئر کراچی کی تجویز سے آپ اتفاق کرتے ہیں؟ آپ اخراجات کیسے کنٹرول کریں گے؟۔ سیکریٹری بلدیات نے کہا کہ لوگل گورنمنٹ مانیٹرنگ کا مکینزم موجود ہے۔ عدالت نے پوچھا کہ آپ اربوں روپے دیتے ہیں، ٹاؤن کو ایک روپیہ نہیں ملتا، پیسے کہاں گئے؟، کے ایم سی کے پاس اپنے فنڈز جنریٹ کرنے کا مکینزم موجود ہے۔
سیکریٹری بلدیاتی نے کہا کہ پورے سندھ میں پنشن کا مسئلہ صرف کراچی میں ہے۔ جسٹس نثار نے کہا کہ سکھر میں بھی بہت کیسز عدالت میں آتے ہیں۔
میئر کراچی سے کہا کہ یہ پورا تنازعہ حل ہوسکتا ہے، کے ایم سی اپنے ملازمین کا کمپیوٹرائز ریکارڈ مرتب کرچکا ہے، ٹاؤن کو ملازمین کا ریکارڈ مرتب کرنے کا کہا ہے، ٹاؤن کو مکینزم بنانا چاہئے، کتنے ملازمین کو بھرتی کیا جارہا ہے انکو ادائیگی کیسے کی جائے گے؟۔
عدالت نے فنانس ڈیپارٹمنٹ کے نمائندے سیکشن آفیسر سے پوچھا کہ آپ ٹی ایم سیز کو پنشن کی مد میں ادائیگی کرتے ہیں؟، جب دستاویز میں لکھا ہے تو پنشن ادا کیوں نہیں کی جاتی؟، سیکریٹری فنانس کہاں ہے؟۔
عدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ فنانس ڈپارٹمنٹ سے کوئی سینئر افسر کیوں پیش نہیں ہوا؟، آپ کہتے ہیں ادائیگی کی جاتی ہے، ٹی ایم سی کہتی ہے ایک کوڑی نہیں ملی۔
میئر کراچی نے کہا کہ کونسل اپنے طور پر ملازمین کیلئے پراویڈنٹ فنڈ قائم کرسکتی ہے، زیادہ تر ملازمین کے ایم سی کے ہیں، 2023ء میں طے کیا کہ ہم صرف کے ایم سی ملازمین کو پنشن ادا کریں گے۔
انہوں نے بتایا کہ ہر ماہ 390 ملین روپے پنشن کی مد میں ملتے تھے، پنشن کی مد میں اخراجات ہر ماہ 500 ملین سے زائد کے تھے، حکومت مانتی ہے کہ یہ لوگ پنشن کے حقدار ہیں، ہم نے دو سالہ مدت کی تجویز دی ہے۔
مرتضیٰ وہاب نے مزید کہا کہ بلدیاتی ملازمین کی پینشن کے معاملے پر چیف سیکریٹری سے ملاقات کی ہے، اس حقیقت سے انکار نہیں کہ درخواست گزار پنشن کے حقدار ہیں، پنشن کے واجبات کون ادا کرے گا اس پر تنازع ہے، ٹاؤن کے ملازمین کی پنشن کے ایم سی کی ذمہ داری نہیں ہے، ہر ٹاؤن میونسپل کارپوریشن کو پنشن کی ادائیگی کا سسٹم بنانا چاہئے۔
عدالت نے کہا کہ فنانس ڈپارٹمنٹ کے مطابق ٹاؤن تنخواہ، پنشن اور ترقیاتی اخراجات کے ذمہ دار ہیں۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ فنانس ڈپارٹمنٹ نے نیا جواب جمع کروایا ہے۔