فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن نے تحریری جواب عدالت عظمٰی میں جمع کرا دیا جبکہ دوران سماعت جج آئینی بینچ جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے کہ مارشل لا ماورائے آئین لیکن آرٹیکل 270 میں اس کو تحفظ دیا گیا۔
جمعرات کو فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کا ٹرائل کالعدم قرار دینے کیخلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سات رکنی آئینی بنچ نے کی جبکہ آغاز میں سپریم کورٹ بار نے ملٹری کورٹس کے حوالے سے تحریری جواب جمع کرایا جس میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ بار کا اصولی موقف تو ہے کہ عام شہریوں کا ملٹری ٹرائل نہیں ہوسکتا ہے لیکن بار آئین اور قانون کی بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔
جواب کے مطابق آرمی ایکٹ کی شقیں عدالتی تشریحات میں آئینی قرار پا چکی ہیں اور ان شقوں کو اب غیر آئینی بھی نہیں قرار دیاجا سکتا ہے، اس وقت تمام آئینی و قانونی اقدامات دہشتگردی کے خاتمے کیلئے ہونے چاہئیں۔
حامد خان کے دلائل
لاہور ہائیکورٹ بار کے وکیل حامد خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا ملٹری کورٹس کیلئے آئین میں اکیسویں ترمیم کی گئی اور جنگی حالات کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے دو سال کیلئے ملٹری کورٹس بنائی گئیں ، ہمیں تو اس پر بھی اعتراض تھا۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں ملٹری کورٹس کا کوئی تصور نہیں، ملٹری کورٹس جوڈیشل باڈی نہیں ہیں، سپریم کورٹ کے 2009 کے فیصلے نے مارشل لاء اور 2015 کے فیصلے نے ملٹری کورٹس کا راستہ ختم کردیا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل کا استفسار
جسٹس جمال مندوخیل نے استفسار کیا مرکزی سوال یہ ہے کہ کیا سویلین کا ملٹری ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں، اگر ملٹری کورٹس کیلئے آئینی ترمیم آجائے تو آپکا موقف کیا ہوگا ؟۔
وکیل حامد خان نے کہا ملٹری کورٹ کا دائرہ اختیار سویلینز کا ٹرائل ہے ہی نہیں، جو کیس بنے ہیں اس میں کہیں بھی ممنوع جگہوں کا ذکر نہیں ہے اور کوئی نوٹیفکیشن نہیں کہ لاہور کور کمانڈر ہاؤس ممنوع جگہ ہے، اس سے پہلے کہیں کوئی تصور موجود نہیں تھا کہ یہ جناح ہاؤس ہے۔
حامد خان نے تلہ سازش کیس، پنڈی سازش کیس اور قادیانیوں سے متعلق ہنگاموں کا بھی حوالہ دیا اور کہا ایسے مقدمات ٹریبونل میں چلائے جاتے رہے۔
انہوں نے مارشل لاء ادوار کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیئے کہ مارشل لاء کے اقدام کی توثیق میں عدلیہ کا بھی کردار ہے مگر اس کیس سے اس کا تعلق نہیں، آئین میں مارشل لاء کی کوئی اجازت نہیں۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے مارشل لاء ماورائے آئین اقدام ہے لیکن آرٹیکل 270 میں اس کو تحفظ دیا گیا۔
بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی، حامد خان دلائل جاری رکھیں گے۔