یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ وہ اب بھی امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کرنے کے لیے تیار ہیں۔
لندن میں برطانوی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئےیوکرین کے صدر ولودیمیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ ان کا ملک امریکہ کے ساتھ معدنیات کے معاہدے پر دستخط کے لیے تیار ہےیہ معاہدہ یوکرین کی جنگ کے بعد معاشی بحالی کے منصوبے کا حصہ تھا، لیکنوائٹ ہاؤس میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تلخ ملاقات کے بعد معاہدہ تعطل کا شکار ہوگیا۔
برطانوی میڈیا سے بات کرتے ہوئے زیلنسکی نے کہا کہ جو معاہدہ میز پر موجود ہے، اگر فریقین تیار ہیں تو اس پر دستخط کیے جائیں گے واشنگٹن میں ان کی ٹرمپ کے ساتھ ملاقات ناخوشگوار رہی، جہاں امریکی صدر نے یوکرین پر زیادہ شکر گزار ہونے کا دباؤ ڈالا اور دھمکی دی کہ اگر معاہدہ نہ ہوا تو امریکہ حمایت ختم کر دے گا۔
واضح رہے کہ ٹرمپ نے زیلنسکی سے کہا تھاکہ آپ یا تو معاہدہ کریں گےیا ہم باہر نکل جائیں گے اور اگر ہم باہر نکلے تو آپ کو خود ہی لڑنا ہوگا اور وہ خوبصورت منظر نہیں ہوگایہ معاہدہ امریکہ کو یوکرین کی وسیع معدنیات کے استحصال میں مالی فوائد دیتا ہے جبکہ واشنگٹن جنگ بندی کے لیے ثالثی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
ٹرمپ نے واضح کیا تھاکہ وہ امریکی فوجی مدد فراہم کرنے کے حق میں نہیں ہیں اور یورپی امن فوجیوں پر زور دیا کہ وہ کسی بھی ممکنہ جنگ بندی میں کردار ادا کریں۔اس تنازع کے بعد زیلنسکی بغیر کسی مشترکہ پریس کانفرنس کے اپنی گاڑی میں وائٹ ہاؤس سے روانہ ہوگئےاور معدنیات کا معاہدہ دستخط کے بغیر رہ گیا۔
دوسری جانب، یوکرین کے اتحادی زیلنسکی کی حمایت میں سامنے آئے۔برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر کی میزبانی میں ہونے والی ایک کانفرنس میں یورپی رہنماؤں نے یوکرین کے دفاع اور سکیورٹی پر مزید اخراجات کا عزم کیا اور جنگ بندی کو یقینی بنانے کے لیے ایک بین الاقوامی اتحاد بنانے پر اتفاق کیا۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون نے لندن سے واپسی پر کہا کہ فرانس اور برطانیہ روس کے ساتھ ایک ماہ کی جزوی جنگ بندی کی تجویز دینا چاہتے ہیں، جس میں فضائی، سمندری اور توانائی کے انفراسٹرکچر پر حملوں کو روکا جائے، مگر زمینی جنگ اس میں شامل نہ ہو۔