امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نےانگریزی کو امریکا کی سرکاری زبان بنانے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
عالمی خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق وائٹ ہاؤس کے اہلکار نے تصدیق کی ہے کہ اس حکم نامے کے تحت وفاقی ادارے اور دیگر سرکاری فنڈز حاصل کرنے والے ادارے غیر انگریزی بولنے والوں کو زبان کی سہولت فراہم کرنے کے پابند نہیں ہوں گے۔
امریکا کی تاریخ میں پہلی بار انگریزی کو باضابطہ طور پر سرکاری زبان کا درجہ دیا جا رہا ہے اگرچہ ملک کی 32 ریاستیں پہلے ہی انگریزی کو اپنی سرکاری زبان تسلیم کر چکی ہیں لیکن وفاقی سطح پر کوئی ایسی قانونی حیثیت موجود نہیں تھی۔
ریپبلکن صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہمیشہ امیگریشن مخالف پالیسیوں کو اپنی انتخابی مہم کا مرکز بنایا ہے وہ امریکا میں انگریزی کے فروغ کو ملکی تشخص کا لازمی حصہ سمجھتے ہیں 2015 میں اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران انہوں نے اپنے ریپبلکن حریف جب بش کو عوامی مہم میں ہسپانوی زبان بولنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔
ٹرمپ کا نیا ایگزیکٹو آرڈر 1990 کی دہائی میں صدر بل کلنٹن کی طرف سے متعارف کرائی گئی پالیسی کو منسوخ کر دے گا، جس کے تحت سرکاری ادارے اور فنڈنگ حاصل کرنے والے ادارے غیر انگریزی بولنے والوں کے لیے زبان کی سہولت فراہم کرنے کے پابند تھے۔
یہ معاملہ ٹیکساس سمیت کئی ریاستوں میں تنازعے کا باعث رہا ہے۔ ٹیکساس جو کبھی میکسیکو کا حصہ تھا، وہاں ہسپانوی زبان کے استعمال پر ماضی میں سخت پابندیاں رہی ہیں۔ 2011 میں ایک ٹیکساس سینیٹر نے امیگرنٹ حقوق کے کارکن کو ہسپانوی کے بجائے انگریزی میں بات کرنے پر مجبور کیا تھا، جس سے یہ مسئلہ مزید متنازعہ بن گیا تھا۔