حال ہی میں ملک بھر میں غیر قانونی سم کارڈز کے خلاف شروع ہونے والا کریک ڈاؤن ایک قابلِ تحسین اقدام ہے۔ پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (PTA) اور فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (FIA) کی ٹیموں نے گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ہزاروں 'گھوسٹ سمز' ضبط کی ہیں اور درجنوں افراد کو گرفتار کیا ہے۔
یہ کارروائی پاکستان کے ٹیلی کام اور سائبر کرائم قوانین کے تحت کی جا رہی ہے، جنہیں اس کیس میں فوری کارروائی کو یقینی بنانے کے لیے یکجا کیا گیا ہے۔ PTA غیر رجسٹرڈ سمز کی فروخت اور استعمال پر سختی سے پابندی عائد کرتا ہے، جبکہ حال ہی میں ترمیم شدہ پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ (PECA) کے تحت غیر قانونی مقاصد کے لیے مواصلاتی آلات کے استعمال کو جرم قرار دیا گیا ہے۔
یہ پری ایکٹیویٹڈ سمز، خاص طور پر برطانیہ سے جاری ہونے والی، انتہائی طلب میں رہتی ہیں۔ زیادہ تر نوجوان بین الاقوامی ای کامرس اکاؤنٹس چلانے یا سوشل میڈیا اکاؤنٹس کو مونیٹائز کرنے کے لیے ان کا استعمال کرتے ہیں۔
چونکہ ان سمز کی رجسٹریشن روایتی بائیومیٹرک تصدیقی نظام سے نہیں ہوتی، اس لیے یہ ناقابلِ سراغ رہتی ہیں۔ مقامی صارفین بلا خوف و خطر ان کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ یہ سمز اکثر غیر ملکی سرورز کے ذریعے چلتی ہیں، جو صارفین کی شناخت کو چھپا دیتی ہیں۔ مزید برآں، اینکرپشن ٹیکنالوجیز اور وی پی این کا استعمال شناخت اور لوکیشن کو مزید مخفی کر دیتا ہے، جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکا ہے۔
انٹیلی جنس رپورٹس کے مطابق، دہشت گرد تنظیمیں اور منظم جرائم کے گروہ ان سمز کو رابطے، تاوان کے مطالبات، منی لانڈرنگ، مالی فراڈ، شناختی چوری، اغواء اور آن لائن بلیک میلنگ کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ یہ سیکیورٹی خدشات اس کریک ڈاؤن کو مزید جواز فراہم کرتے ہیں، لیکن ساتھ ہی یہ ظاہر کرتے ہیں کہ بین الاقوامی کاروباری روابط کے لیے قانونی اور محفوظ متبادل کی بھی اشد ضرورت ہے۔
بین الاقوامی ٹیلی کام کمپنیاں، جو یہ سمز جاری کرتی ہیں، ان کے غلط استعمال سے مکمل طور پر بے خبر نہیں ہوتیں۔ ریگولیٹری اداروں کو چاہیے کہ وہ اس غلط استعمال کو روکنے کے لیے سخت اقدامات کریں اور غیر ملکی سروس فراہم کنندگان کو پابند کریں کہ وہ اپنی نیٹ ورکس پر ہونے والی غیر قانونی سرگرمیوں سے آنکھیں نہ چرائیں۔
مقامی سطح پر ریٹیلرز کے خلاف سخت مانیٹرنگ اور بڑی تعداد میں سمز کی درآمد پر کنٹرول کے ذریعے غیر قانونی فروخت کو روکا جا سکتا ہے۔ اسی طرح، لائسنسنگ فریم ورک متعارف کروا کر ذمہ داری کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ عوام کو بھی غیر قانونی بین الاقوامی نمبروں کے استعمال سے متعلق خطرات کے بارے میں آگاہ کرنا ضروری ہے۔
حکام درآمد کنندگان اور فروخت کنندگان کو جوابدہ بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں، لیکن انہیں ایسے قانونی طریقہ کار بھی وضع کرنے چاہئیں جو غلط استعمال کے مواقع کو ختم کریں اور بین الاقوامی نمبروں کو سیکیورٹی رسک بننے سے روکیں۔بجائے اس کے کہ بین الاقوامی سمز پر مکمل پابندی لگا دی جائے، حکام کو ایسی پالیسیز مرتب کرنی چاہئیں جو ان سمز کے غلط استعمال کو روکتے ہوئے ڈیجیٹل کاروباری مواقع کو بھی متاثر نہ کریں۔