سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر دوران سماعت جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے کہ نو مئی کو حد کردی گئی ۔ آج آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے؟ آپ کی جماعت نے اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی۔ اپوزیشن میں آکر کہتے ہیں اس وقت جو ہوا وہ غلط تھا۔ سلمان اکرم راجہ کا خود پر مقدمات کا بھی ذکر ۔ کہا اگر قانون کی شقیں بحال ہو گئیں تو مجھے بھی ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا مفروضوں پر بات نہ کریں۔
سپریم کورٹ میں فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت میں وکیل سلمان اکرم راجا نے دلائل میں کہا عام شہریوں کا کورٹ مارشل کسی صورت ممکن نہیں ۔ بھارت اور برطانوی قانون کی مثالیں دیں ۔ جسٹس امین الدین خان نے کہا ہم نے اپنا قانون دیکھنا ہے ۔ آپ وقت ضائع کر رہے ہیں ۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا برطانوی قانون تو فوج کے ڈسپلن سے متعلق ہے ۔ موجودہ کیس میں جرم عام شہریوں نے کیا ۔ وہ اس پر کیسے اپلائی ہو سکتا ہے؟ جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دیئے قانون کی شقوں کا جائزہ لینا ہے تو عالمی قوانین کو بھی دیکھنا ہو گا۔
سلمان اکرم راجہ نے خود پر مقدمات کا بھی ذکر کیا کہا مجھ پر بانی پی ٹی آئی کے ساتھ رینجرز اہلکاروں کے قتل کی سازش کا الزام ہے۔اگر قانون کی شقیں بحال ہوں تو مجھے ایک کرنل کے سامنے پیش ہونا پڑے گا۔جسٹس محمد مظہر بولے ایسا نہیں ہے کسی کو پکڑ کر ملٹری ٹرائل کردیں گے۔ عام ایف آئی آر میں بھی محض الزام پر ملزم کو پکڑا جاتا ہے۔آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا پرانا قانون صرف جاسوسی کےخلاف تھا۔ترمیم کرکے نئے جرائم شامل کیے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا ایف بی علی کیس کے وقت آرٹیکل 175 تین ہوتا تو ٹرائل فوجی عدالت نہ جاتا۔ عدالت کے ہاتھ بندھے ہوئے نہیں ہیں، اس اپیل میں ایف بی علی کیس دیکھ سکتی ہے۔ جسٹس امین الدین نے جواب دیا مرکزی فیصلے میں تو اس شق کے تحت ایف بی علی کیس کالعدم نہیں قرار دیا گیا۔آج تک کسی عدالتی فیصلے میں ایف بی علی کیس کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔ایف بی علی فیصلے کو کیوں چیلنج نہیں کیا گیا؟
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا 9 مئی کو حد کردی گئی ۔ آج آپ کو بنیادی حقوق یاد آگئے؟ آپ کی جماعت نے اکیسویں آئینی ترمیم کے وقت فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی۔ اپوزیشن میں آکر کہتے ہیں اس وقت جو ہوا وہ غلط تھا۔