امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک مرتبہ پھر ’غزہ‘ کا کنٹرول سنبھالنے کے اپنے منصوبے کو دہراتے ہوئے اس کی مزید وضاحت کر دی ہے جس میں ان کا کہنا تھا کہ اس جنگ کے بعد اسرائیل غزہ کی پٹی کو امریکہ کے حوالے کر دے گا ، اس کیلئے فوج کی ضرورت نہیں پڑے گی ، پھر ہم دنیا کی عظیم ترقیاتی ٹیموں کے ساتھ مل کر غزہ کی تعمیر نو کریں گے ‘ ، ٹرمپ ایسا خواب دیکھ رہے ہیں جسے حقیقت بنانے کے نتائج بہت ہی سنگین ہو ں گے، فلسطینی عوام نے اسرائیل کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے تو وہ امریکہ کے آگے سر کبھی نہیں جھکائیں گے جبکہ ان کے اس منصوبے کو عرب ممالک پہلے ہی رد کر چکے ہیں اور سعودی عرب نے بھی فلسطیینی ریاست کے قیام کے اپنے موقف کو دہرا دیاہے جس کی تصدیق محمد بن سلمان نے بھی کی ۔ 2003 میں امریکہ کے عراق میں کیئے گئے حملے کے خوفناک نتائج کے بعد ایسا کوئی بھی قدم نہایت غیر مقبول ہو گا اور اگر ٹرمپ اپنے خواب کو حقیقت میں تبدیل کرنے کیلئے جدوجہد کا آغاز کر بھی دیتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں سعودی عرب، اردن اور مصر کی حمایت کی ضرورت ہو گی جبکہ سعودی عرب پہلے ہی امریکی منصوبے کو رد کر چکا ہے ۔
ٹرمپ نے جب 2016 میں حکومت سنبھالی اور افغانستان سے فوجیں نکالنے کے فیصلے پر عملدرآمد شروع کیا تو ان کے بارے میں ایک تاثر یہ تھا کہ وہ مختلف خطوں میں جاری جنگوں کے خاتمے کیلئے اقداما ت کریں گے لیکن اسرائیل کے فلسطین پر غیر قانونی قبضے کی حمایت اور معصوم شہریوں کو ان کے اپنے ہی ملک سے نکالنے کا منصوبہ ٹرمپ کا اپنے ہی اصولوں سے لیا گیا ایک بڑا یوٹرن ہے ، وہ مشرق وسطیٰ میں ایک نیا محاذ کھولنے جارہے ہیں جس کے اثرات یقینی طور پر دیگر ممالک پر بھی آئیں گے ۔ اقوام متحدہ نے بھی ٹرمپ کے اس منصوبے کی مذمت اور فلسطینی ریاست کے قیام کی توثیق کی ہے ۔
اسرائیل اور حماس میں سیز فائر کی معیاد 3 مارچ کو ختم ہونے جارہی ہے جبکہ اس دوران تین مختلف مراحل میں قیدیوں کا تبادلہ بھی ہوا ، ٹرمپ کے اعلانات اور منصوبے جیسے بھی ہوں اس کے خطے پر اثرات اور نتائج ضرور برآمد ہوں گے لیکن امریکی صدراگر یہ سوچ رہے ہیں کہ فلسطینیوں کو وہ بغیر کسی طاقت کے استعمال کے وہاں سے بے دخل کرنے میں کامیاب ہو جائیں گےتو انہیں یقینی طور پر اس پر ایک مرتبہ اپنے ماہرین کی بھی رائے لینی چاہیے اگر وہ طاقت کا استعمال کریں گے تو مزاحمت شائد پہلے سے بھی زیادہ سخت ہو جائے ۔ ٹرمپ نے اسرائیل کے وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو کے ساتھ مل کر منصوبہ تو بنا لیا ہے لیکن غزہ کا انتظام چلانے سے متعلق کوئی بھی ماڈل پیش نہیں کیا ہے جو کہ ان کے اعلانات کو عملی جامہ پہنانے کے عمل کو تقویت بخشتا ہو بلکہ یہ صرف دھونس اور دھمکی کے ذریعے کام نکلوانے کا ایک طریقہ ثابت ہو سکتا ہے یا پھر ٹرمپ ایک مرتبہ پھر سے ’ ابراہم معاہدے‘ میں مزیدعرب ممالک کو شامل کرنے کیلئے کوئی نیا منصوبہ بنا رہے ہوں ۔
غیر ملکی خبررساں ادارے یہ بتا رہے ہیں کہ ٹرمپ کے اعلانات کے بعد اردن کے شاہ عبداللہ دوم نے بھی اپنے سفارتی رابطے تیز کر دیئے ہیں تاکہ امریکی منصوبے کو روکنے کیلئے موثر محاذ تشکیل دیا جا سکے جبکہ شاہ عبداللہ دوم اس حوالے سے ممکنہ طور پر 11 فروری کو وائٹ ہاوس میں ٹرمپ کے ساتھ ملاقات کی بھی تیاری کر رہے ہیں جس کیلئے رابطوں میں تیزی دیکھی گئی ہے ۔