پاکستان سمیت دنیا بھر میں یوم یکجہتی کشمیر منایا گیا اور اس موقع پر سرکار ی و نجی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیلئے تقاریب کا انعقاد کیا گیا ۔ ہر سال یہ دن سرکاری و نجی سطح پر خصوصی اہتمام کے ساتھ منایا جاتا ہے جس کا مقصد بھارتی تسلط سے آزادی کی جدو جہد کرنے والے کشمیری بہنوں بھائیوں کے ساتھ بھر پور یکجہتی کا اظہار کیا جا سکے ۔کشمیر کے معصوم عوام جس جذبے اور صبر و استقامت سے ظالم اور غاصب بھارتی حکومت اور بھارتی فوج کے تشدد کو برداشت کرتے ہوئے آزادی کی جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اس کی پوری دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی، پاکستان تمام کشمیر ی بھائیوں اور بہنوں کے جذبے اور حوصلے کو سلام پیش کرتا ہے ۔ بھارتی حکومت وفوج ظلم اور تشدد کے ذریعے جب کشمیریوں کی آواز حق کو خاموش کرانے میں ناکام ہوئی تو 5 اگست 2019 کو شب خون مارتے ہوئے کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کو ختم کر دیا اور اسے بھارت میں ضم کر دیا ۔
1975 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں شیخ عبداللہ اور اندرا گاندھی کے درمیان ہونے والے معاہدے کے وقت کشمیریوں کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر ذوالفقار علی بھٹو نے اعلان کیا کہ پاکستانی عوام بھرپور طریقے سے کشمیریوں کا ساتھ دے گی اور ایسا ہوا بھی۔ یہ 28 فروری 1975 کا دن تھا ، پاکستان میں اظہارِ یکجہتی ہوا اور کشمیر میں اتنا زبردست احتجاج اور ہڑتال ہوئی کہ لوگوں نے اپنے جانوروں تک کو پانی نہیں پلایا۔ یہ مثالی ہڑتال ذوالفقا ر علی بھٹو کے اعلان پر ہوئی ۔اس کے بعد یہ دن گاہے بگاہے منایا جاتا رہا لیکن جماعت اسلامی کے امیر قاضی حسین احمد نے اس وقت کے وزیر اعلیٰ پنجاب میاں نواز شریف کی مشاورت سے 5 فروری 1990 کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا اعلان کیا ، وزیراعظم محترمہ بینیظیر بھٹو نے بھی نوازشریف اور قاضی حسین احمد کے اعلان کی تائید کی جس کے بعد پانچ فروری کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کا سلسلہ شروع ہوا۔
تاہم اس دن کو سرکاری طور پر منانے کاآغاز 2004 میں ہوا ، اس وقت کے وزیر اعظم ظفر اللہ خان جمالی اور وزیر امور کشمیر و گلگلت بلتستان آفتاب احمد خان شیرپاو نے یہ دن سرکاری طور پر منانے کے اعلان کیا۔ پانچ فروری 2004 کو وزیر اعظم جمالی نے مظفرآباد میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی قانون ساز اسمبلی اور جموں وکشمیر کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کیا۔ تب سے یہ روایت چلی آ رہی ہے کہ ہر سال اسی دن یہ مشترکہ اجلاس منعقد ہوتا ہے اور وزیر اعظم پاکستان یا ان کا نامزد نمائندہ اس اجلاس میں ضرور شامل ہوتا ہے، اسی تناظر میں آج شہبازشریف نے بھی شرکت کی اور اجلاس سے خطاب کیا ۔