چین اور امریکہ کے درمیان اقتصادی جنگ کا آغاز ہو چکا ہے جس کے اثرات یقینی طور پر دیگر ممالک پر بھی آئیں گے ، ٹرمپ کے چینی صدر کے ساتھ معاملات طے ہوتے دکھائی نہیں دیتے تاہم امریکی صدر نے کینیڈا اور میکسیکو کے ساتھ تجارتی ’ جنگ‘ کو ایک ماہ کیلئے موخر کر دیاہے جو کہ یقینی طور پر دونوں ہمسایہ ممالک کی جانب سے ٹرمپ کی ’ شرائط‘ کے سامنے سر تسلیم خم کرنے کے بعد ہی ممکن ہواہے ۔کینیڈا اور میکسیکو نے سرحد پر 10 ہزار اضافی نفری تعینات کرنے ، منشیات سمگلنگ اور تارکین وطن کو روکنے کیلئے فضائی نگرانی سخت کرنے کی حامی بھر لی ہے ۔ یہاں تک کے کینیڈا کے وزیراعظم جسٹسن ٹروڈو نے سرحد کی نگرانی پر ایک ارب تیس کروڑ ڈالر خرچ کرنے کا اعلان بھی کر دیاہے جبکہ میکسیکن صدر نے بھی ٹرمپ کو تمام شرائط پر عملدرآمد کی یقین دہانی کروا دی ہے ۔
امریکہ کی جانب سے چینی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف لگائے جانے کے ردعمل میں چین نے بھی امریکی مصنوعات پر 10 سے 15 فیصد تک اضافی ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کر دیاہے ، جوابی اقدام کے تحت چین نے امریکہ سے کوئلے اور مائع قدرتی گیس کی درآمد پر 15 فیصد ٹیکس جبکہ خام تیل، زرعی مشینری، پک اپ ٹرک اور بڑے انجن والی گاڑیوں پر 10 فیصد تک ٹیکس عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔دوسری جانب میکسیکو اور کینیڈا کے ساتھ الگ الگ معاہدوں کے بعد صدر ٹرمپ نے ان ممالک پر ٹیرف کا نفاذ عارضی طور پر روک کر دیا ہے تاہم چینی مصنوعات پر لگایا گیا 10 فیصد ٹیرف یا ٹیکس آج سے نافذ العمل ہو چکا ہے۔
ٹرمپ نے کینیڈا کی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا فیصلہ ایک ماہ کیلئے موخر کر دیا ہے لیکن اس سے قبل دونوں ممالک کے درمیان کافی گرما گرمی بھی دیکھنے کو ملی، ٹرمپ کینیڈا کو امریکہ کی 51 ویں ریاست بنانے کا راگ الاپتے رہے اور نہ بننے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دیتے رہے ۔ امریکی صدر کے اقدامات کو دیکھتے ہوئے کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے اپنی عوام سے امریکی مصنوعات کے بائیکاٹ کا مطالبہ بھی کر دیا تھا ، ان کا کہناتھا کہ جوابی اقدام کے طور پر بیئر، وائن، لکڑی اور برقی آلات سمیت 155 ارب ڈالر کی امریکی مصنوعات پر 25 فیصد ٹیکس عائد کیا جائے گا ، جس کا آغاز منگل کو 30 ارب ڈالر اور 21 دن بعد 125 ارب ڈالر کی مصنوعات پر ہوگا لیکن اب دونوں ممالک میں برف پگھلتی دکھائی دیتی ہے جس کی وجہ امریکی صدر کی شرائط کی قبولیت ہے ۔امریکی مردم شماری بیورو کے اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں تقریباً 100 ارب ڈالر کے ساتھ کینیڈا سے تمام امریکی درآمدات کا تقریباً ایک چوتھائی خام تیل کی درآمدات پر مبنی تھا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے تین ممالک پر ٹیرف عائد کرنے کے اقدام پر جہاں دنیا کے دیگر ممالک تشویش کا اظہار کر رہے ہیں وہیں امریکہ کے ایشیاء میں قریبی ترین اتحادی جاپان نے شدید تشویش ظاہر کر دی ہے ۔ جاپانی وزیر خزانہ’ کاٹسونوبو کاٹو ‘نے ایک ٹی وی پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وہ عالمی معیشت پر پڑنے والے ممکنہ اثرات کے بارے میں بہت فکر مند ہیں۔ کاٹو نے اس بات پر زور دیا کہ جاپان کو غیر ملکی زرِ مبادلہ کی نقل و حرکت اور امریکہ کی مالیاتی پالیسی کے مستقبل کا باریک بینی سے تجزیہ کرنا ہوگا، کیونکہ امریکہ جاپان کا ایک اہم تجارتی شراکت دار ہے۔دوسری جانب یورپی یونین نے بھی تینوں ممالک پر ٹیرف عائد کئے جانے کی مذمت کی ہے جبکہ یورپین کمیشن کے ترجمان نے امریکاکو متنبہ کیا ہے کہ اگر یورپی اتحاد پر کوئی ٹیکس عائد کیا گیا تو وہ بھی جوابی اقدامات کیلئے تیار ہیں ۔
سنہ 2018 میں اپنے پہلے دورِ صدارت کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ نے چینی مصنوعات کی درآمد پر محصولات عائد کیں تو چین کا کہنا تھا کہ وہ ’تجارتی جنگ سے نہیں ڈرتا۔‘ ماضی قریب میں چین نے افریقہ، جنوبی امریکہ کے ممالک اور جنوب مشرقی ایشیائی ممالک سے اپنے تجارتی روابط مضبوط کیے ہیں۔ چین اب دنیا بھر کے 120 ممالک کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ماہرین کا ماننا ہے کہ امریکہ چین پر عائد کیئے جانے والے ٹیرف سے وہ فائدہ شائد حاصل نہیں کر سکے گا جس کا اندازہ لگایا گیاہے ۔
چونکہ جس دوران امریکی صدر نے عہدہ سنبھالا اور چینی مصنوعات پر ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا اس وقت چین میں نئے سال کا جشن جاری تھا اور زیادہ تر ملازمین اپنے گھروں میں نئے سال کا تہوار منانے پہنچے ہوئے تھے ، اب چھٹیاں اختتام کو پہنچ رہی ہیں اور جلد ہی چین کی جانب سے مزید رد عمل سامنے آ سکتا ہے ۔ میکسیکو اور کینیڈا کے مقابلے میں چین نے کچھ سمجھداری اور صبر سے کام لیاہے اور فوری طور پر کوئی شدید رد عمل ظاہر نہیں کیا تاہم 10 سے 15 فیصد جوابی ٹیرف کا ابتدائی اعلان سامنے آیا ہے ، چین کی جانب سے جوابی ٹیرف کے ساتھ ہی امریکہ کیخلاف عالمی ادارہ تجارت سے بھی رجوع کرنے کا اعلان بھی کیا لیکن ایسا محسوس ہوتاہے کہ اس سے امریکہ کو کوئی خطرہ نہیں جس کی مثال ماضی میں ملتی ہے ۔2019 میں ڈونلڈ ٹرمپ نے پہلے دورے صدارت کے دوران عالمی ادارہ تجارت میں ان ججوں کی تعیناتی بلاک کر دی تھی جو تجارتی تنازعات کی اپیلیں سنتے اور فیصلے سناتے تھے ۔