ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن (ڈی آر ایف) نے عالمی ڈیٹا پروٹیکشن ڈے کے موقع پر نیشنل پرائیویسی کانفرنس 2025ء کا انعقاد کیا جس میں تازہ ترین تحقیقاتی رپورٹ "پاکستان میں ووٹر ڈیٹا پرائیویسی: پرائیویسی رسک، ڈیٹا پروٹیکشن اور قانون سازی میں خامیاں" کا اجراء کیا گیا۔
اس کانفرنس کا انعقاد ووٹر ڈیٹا پرائیویسی اور پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن قانون سازی کی حالت سے متعلق اہم مسائل کو حل کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔
کانفرنس میں پالیسی سازوں، ماہرین، سول سوسائٹی تنظیموں، سیاسی جماعتوں کے نمائندوں اور دیگر متعلقہ فریقین نے شرکت کی، ایسے وقت میں جب پاکستان اپنی معیشت کو ڈیجیٹلائز کرنے کے عزائم رکھتا ہے لیکن ڈیٹا لیکس اور انٹرنیٹ رکاوٹوں جیسے مسائل سے دوچار ہے، پر غور کیا گیا۔
کانفرنس کا آغاز ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نگہت داد کی افتتاحی تقریر سے ہوا، جس میں انہوں نے کہا کہ رازداری کا حق صرف ذاتی معلومات کے بے قابو تبادلے کا معاملہ نہیں، بلکہ یہ عوامی اعتماد، باہمی احترام اور شہریوں کے تحفظ کو یقینی بنانے سے متعلق ہے، چاہے وہ آن لائن ہو یا آف لائن۔
ہیومن رائٹس واچ کے سینئر کاؤنسل برائے ایشیا، سروپ اعجاز نے کلیدی خطاب میں کہا کہ آج کی دنیا میں رازداری کی خلاف ورزی کو معمول بنا دیا گیا ہے، جہاں آپ کو اپنی حفاظت کے بدلے اپنی رازداری کا سودا کرنا پڑتا ہے لیکن یہ ایک غلط تقسیم ہے، جب آپ اپنی رازداری کو نظر انداذ کرنے سے زیادہ محفوظ نہیں رہتے۔
کانفرنس کے پہلے پینل سیشن میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی تحقیق پر گفتگو کی گئی، جس نے فروری 2024ء کے عام انتخابات کے دوران ووٹر ڈیٹا کے تحفظ میں موجود خامیوں کو اجاگر کیا۔ اس سیشن میں ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سائبر ہراسمنٹ ہیلپ لائن کی سربراہ حیرہ باسط نے ماڈریٹر کے فرائض انجام دیے، جبکہ مقررین میں محقق مریم علی خان، پاکستان پیپلز پارٹی کی نمائندہ نایاب جان اور ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی سینئر مینیجر برائے تحقیق و مواصلات ماہین پراچہ شامل تھیں۔
مقررین نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کے ووٹر ڈیٹا کے تحفظ کے موجودہ فریم ورک میں موجود خامیوں پر روشنی ڈالی اور یہ بھی زیر بحث آیا کہ سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے دوران ووٹرز کا ڈیٹا کیسے استعمال کیا۔ مزید براں، ووٹنگ کی معلومات کو زیادہ محفوظ بنانے کیلئے جن اقدامات کی ضرورت ہے، ان پر بھی تبادلہ خیال کیا گیا۔
مس جین نے نوٹ کیا کہ "ہر سیاسی جماعت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ڈیجیٹل دیانت داری کو برقرار رکھے" اور انہیں "اندرونی ضابطہ اخلاق، قانون سازی اور مکالمے" پر کام کرنا چاہیے۔ مس پراچہ نے مزید کہا کہ اس کی ذمہ داری الیکشن کمیشن آف پاکستان اور نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی پر عائد ہوتی ہے۔ علاوہ ازیں، "یہ تصور کہ ڈیٹا کے غلط استعمال کو صرف ایک تکلیف سمجھا جائے، ختم ہونا چاہئے، ڈیٹا کے غلط استعمال سے کمزور افراد کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
دوسرے پینل میں اس پر روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کا جامع اور عوام دوست قانون کیوں ضروری ہے۔ ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی سینئر ریسرچ اینڈ گرانٹس ایسوسی ایٹ سیرت خان نے اس سیشن کو ماڈریٹ کیا، جبکہ مقررین میں رازداری کی ماہر زینب خان درانی، ڈیجیٹل رائٹس فاؤنڈیشن کی پروگرام لیڈ ارم شجاع، "بولو بھی" کے شریک بانی اور ڈائریکٹر اسامہ خلجی، اور نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کے اسسٹنٹ ڈائریکٹر (جنرل) غلام عباس سپرا شامل تھے۔
مقررین نے اس بات پر تبادلہ خیال کیا کہ پاکستان میں ڈیٹا پروٹیکشن کے قوانین کی عدم موجودگی عام شہریوں کو ڈیٹا کے غلط استعمال، جیسے شناختی چوری، اسپام، اور بائیومیٹرک ڈیٹا کے ممکنہ استحصال کا شکار بنا سکتی ہے۔ محترمہ شجاع نے مشاہدہ کیا کہ، " موجودہ ریگولیٹری فریم ورک میں ڈیٹا مٹانے اور رضامندی کا عمل وکلاء کے لیے سمجھنا ہی مشکل ہے، عام شہریوں کو تو چھوڑ ہی دیں۔"
مزید برآں، اس بات پر بھی روشنی ڈالی گئی کہ ایک جامع ڈیٹا پروٹیکشن قانون میں کون سے کلیدی عناصر شامل ہونے چاہئیں، جیسا کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کے اصولوں سے ہم آہنگی، اور موجودہ سیاسی صورتحال کے پیش نظر پاکستان کا اس معاملے میں ممکنہ مستقبل کیا ہو سکتا ہے۔ مس درانی نے زور دیا کہ "اگر ایسے قانون سازی کا عمل مشاوری نہ ہو، تو یہ عوام کی ضروریات کی نمائندگی نہیں کرے گا اور یہ ایک اور قانون بن جائے گا جو حقوق کی ضمانت دینے کے بجائے انہیں محدود کرنے کا سبب بنے گا۔"
کانفرنس کے اختتام سے قبل، شرکاء نے پینلسٹس سے سوالات کیے۔ ایک شریک نے نشاندہی کی کہ ضروری قانون سازی موجود ہونے کے باوجود اس پر عمل درآمد کی کمی ہے، جسے مس درانی نے تسلیم کیا اور مزید کہا، "وَکالت (ایڈوکیسی) کو چند تنظیموں یا ڈیجیٹل حقوق کے کارکنوں تک محدود نہیں رکھا جا سکتا۔ ہمیں سب کو اپنے اجتماعی حقوق کے لیے سرگرم ہونا ہوگا۔" پینلسٹس اور شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ پاکستان کے شہریوں کے لیے ایک محفوظ اور رازداری کا احترام کرنے والے ڈیجیٹل مستقبل کو یقینی بنانے کے لیے جامع قانون سازی کے ذریعے ڈیٹا کی کمزوریوں کو دور کرنا انتہائی ضروری ہے۔