پاکستان افغان مہاجرین کی 4 دہائیوں سے بے مثال مہمان نوازی کر رہاہے لیکن اب یہ آزمائش اپنے اختتام کوپہنچنی چاہیے ، جب با ت قومی سلامتی کی ہو توآپ یہ حق محفوظ رکھتے ہیں کہ مہمانوں کو واپسی کا راستہ دکھائیں ۔ پاکستان اقوام متحدہ کے 1951 کے مہاجرین کے کنونشن کا دستخط کنندہ بھی نہیں لیکن اس کے باوجود انسانی بنیادوں پر بے پناہ قربانیاں دیتے ہوئے ہر طرح سے مدد اور دوستی کا حق سب سے بڑھ کر ادا کیا لیکن انسانی حقوق کی تنظمیں اور مغربی ممالک پاکستان کے کردار کی معترف ہونے کی بجائے غیر قانونی افغانیوں کی ملک بدری پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں جبکہ تنقید کرنے والے مغربی ممالک خود بھی انہیں قبول کرنے کیلئے تیار نہیں لیکن پاکستان پر دباو ڈالنے کی بھر پور کوششیں کی جارہی ہیں ۔
خود تو امریکہ قومی سلامتی کو بنیاد بنا کر بڑے پیمانے پر غیر قانونی تارکین وطن اور پناہ کے متلاشیوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ملک سے نکالنے کیلئے کوشاں ہے لیکن اس پر نہ تو کسی کو تشویش ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض ۔ کابل سے 2021 میں امریکی فوجیوں کے انخلاء سے دو عشروں پر محیط جنگ کا خاتمہ ہوا لیکن ایک نیا خروج شروع ہو گیا کیونکہ افغان باشندے طالبان حکومت کی پابندیوں اور واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کے ساتھ کام کرنے پر انتقامی کارروائی کے خوف سے ملک چھوڑ دینا چاہتے تھے۔ ہزاروں افغان جنہوں نے امریکہ اور یورپی ممالک میں آبادکاری کے لیے درخواستیں دی ہوئی تھیں، وہ پاکستان میں داخل ہو گئے ۔
ٹرمپ نے گذشتہ ہفتے پناہ گزینوں کے ویزا کی کارروائی کو کم از کم 90 دنوں کے لیے روک دینے کا جو فیصلہ کیا ہے، وہ اس سلسلے میں تازہ ترین دھچکا ہے۔ پاکستان میں موجود افغان شہری جو بیرون ملک آبادکاری کے منتظر ہیں، ان کی تعداد سے متعلق ایک سوال کے جواب میں ترجمان شفقت علی خان نے کہا، "میں آپ کو ایک وسیع تعداد بتا سکتا ہوں۔ تقریباً 80,000 کو مختلف ممالک اپنے ہاں دوبارہ آبادکاری کے لیے لے گئے ہیں اور تقریباً 40,000 اب بھی پاکستان میں ہیں۔"
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے پناہ گزین پالیسی کی منسوخی کے بعد امریکا کے لیے ان 1660 افغان مہاجرین کی پروازیں بھی منسوخ ہوگئی تھیں جن کے پاکستان سے امریکا پرواز کے لیے ٹکٹ بھی کنفرم ہو گئے تھے۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حال ہی میں یہ مؤقف اپنایا کہ امریکی آئین میں پیدائشی شہریت میں ترمیم غلاموں کے بچوں کے لیے تھی، نہ کہ پوری دنیا کے لیے کہ وہ امریکہ آ کر یہاں "ڈھیر" لگالیں۔
امریکہ کا اپنے اتحادیوں کو استعمال کرنے کے بعد تنہا چھوڑ دینے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ یہ طرزِ عمل اکثر متاثرہ کمیونٹیز اور ممالک کے لیے سنگین نتائج کا باعث بنتا ہے۔ سوویت-افغان جنگ سے لے کر ویتنام، عرب اسپرنگ اور 2021 میں افغانستان سے افراتفری کے عالم میں انخلا تک، جن لوگوں نے امریکی حمایت پر بھروسہ کیا، وہ بالآخر غیر محفوظ رہ گئے۔
جنگ کے اثرات کسی ملک نے پاکستان کی طرح نہیں سہے۔ پاکستان نے کئی دہائیوں تک لاکھوں افغان مہاجرین کو پناہ دی، اور انہیں اپنے وسائل پر بوجھ ہونے کے باوجود مہمانوں کی طرح رکھا۔لیکن، سلامتی کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ غیر قانونی طور پر مقیم افغان مہاجرین کی ایک بڑی تعداد جرائم میں ملوث پائی گئی ہے، جن میں چوری، ڈکیتی، اور حتیٰ کہ قتل جیسے سنگین جرائم شامل ہیں۔ پاکستان اپنی مہمان نوازی برقرار رکھے ہوئے ہے، لیکن اسے اپنے شہریوں کی حفاظت کا بھی پورا حق حاصل ہے۔
بغیر زمینی حقائق کو سمجھے مطالبے کرنا ناانصافی ہے۔ وقت آ گیا ہے کہ جو ممالک افغان مہاجرین کو پناہ دینے کے وعدے کرتے رہے ہیں، وہ اپنے دروازے کھولیں۔ پاکستان طویل عرصے سے اس بوجھ کو اٹھا رہا ہے، اور اگر اب اس نے اپنے حقوق کے لیے کھڑے ہونے کا فیصلہ کیا ہے تو اس پر تنقید کرنا غیر منصفانہ ہے۔ کیا مغرب خود پر بھی وہی معیار لاگو کرنے کی ہمت کرے گا جو وہ پاکستان پر تھوپنے کی کوشش کر رہا ہے؟