یہ کہانی ایک ایسے خاندان کی ہے جو قیام پاکستان سے قبل زمیندار تھے اور پاکستان بننے کے بعد ضلع ملتان کے علاقے قاسم بیلہ منتقل ہوگیا۔ یہ خاندان مسیحی برادری سے تعلق رکھتا ہے اور انہوں نے حکومت سے زمین الاٹ کروا کے کاشتکاری کا کام کرتے آرہے ہیں۔
منور شہزاد کے خاندان قیام پاکستان سے قبل ضلع لودھراں کے علاقے جلال پور میں زمیندار تھے۔ ان کا گھرانہ کئی نسلوں سے زمیندار رہا ہے اور انہوں نے اپنی زندگی کھیتی باڑی میں گزاری ہے۔
حکومت نے اس وقت بہت سے لوگوں کو زمین دی تاکہ وہ کاشتکاری کر سکیں۔ منور شہزاد کے خاندان نے بھی حکومت سے زمین حاصل کی اور ملتان کے علاقے میں دنیاپور چک نمبر 26 میں آباد ہو گئے۔منور شہزاد کے مطابق دنیا پور میں 100 مربع زمین مسیحی برادری کے لیے مخصوص کی گئی ہے۔ یہ زمین حکومت نے مسیحی برادری کو دی تھی تاکہ وہ کاشتکاری کر سکیں ۔
انہوں نے بتایا کہ مسیحی برادری نے اس زمین پر گندم اور کپاس کی کاشت شروع کی اور بہت محنت سے کام کیا۔مسیحی برادری نے اپنی زندگی میں کئی مشکلات کا سامنا کیا لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری اور کاشتکاری کرتے رہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’’موسمیاتی تبدیلیوں کا کسانوں پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔ دنیا پور میں 400 کے قریب گھرانے کھیتی باڑی پر انحصار کرتے ہیں اور ان کے لیے یہ تبدیلیاں بہت مشکل کا باعث بن رہی ہیں۔
مثال کے طور پر آپ دیکھ لیں کہ پنجاب میں بارش کے بغیر ہی سردی شروع ہو گئی ہے اور موسم غیرمعمولی طور پر سرد یا گرم نہیں ہے، یہ موسمیاتی تبدیلیوں کی واضح علامت ہے۔ موسم میں اس طرح کے غیرمعمولی تبدیلیاں فصلوں کے لیے بہت نقصان دہ ہو سکتی ہیں‘‘۔ان سے گفتگو کرتے ہوئے بہت سی باتوں کا اندازہ ہو اکہ دنیا پور میں بہت سے معاملات میں، مسیحی برادری کے پاس اختیارات محدود ہیں۔اگرچہ وہاں کی اکثریتی مسیحی برادری کو زمینداری کا ہی کام ہے تو جن کے پاس خود کی زمین نہیں ہوتی تو وہ ٹھیکے پر زمین لر کر گزر بسر کرتا ہے۔
جاوید اقبال بھی مسیحی برداری سے تعلق رکھتے ہیں اور دنیا پور کے رہائشی ہیں ۔انکے خاندان کی دوسری نسل ہے جو کھیتی باڑی سے منسلک ہے۔جاوید اقبال کے4 بچے ہیں جن میں 3بیٹیاں اور 1بیٹا ہے۔انکی فیملی کے تمام افراد کھیتوں میں اپنے والد کے ساتھ کام کرتے ہیں۔اُس نے وہاں کے بڑے زمیندار سے 2لاکھ25ہزار فی ایکٹر سالہ زمیں ٹھیکے پر لی تھی۔زمین کے اس چھوٹے سے ٹکڑے پر اس نے موسم سرما کی سبزیاں ،کدو،بیگن کی کاشت کی مگر موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے نہ پودے پر پھول بنے اور جن پر پھول بنے وہ پھل پک نہ سکا۔ اقبال کا کہنا ہے یہ اس کے ساتھ پہلی بار ہوا ہے کہ میں قرضہ کے بوجھ تلے آ گیا ہوں ۔میرا خاندان سالوں سے انہیں زمینوں ہر کیتی باڑی کرتے آ رہے ہیں ،مگر کبھی ایسی صورتحال نہیں دیکھی تھی‘‘۔
ایشیا پیسیفک کلائمٹ رپورٹ کے مطابق موسمیاتی تبدیلی کے باعث آ ئندہ برسوں میں پاکستان کو شدید نقصانات کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ پاکستان کو 2070 تک جی ڈی پی میں 21 فیصد کمی کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے، پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان زراعت کے شعبے میں ہونے کا خطرہ ہے۔ 2070 تک چاول، مکئی کی پیداوار میں تقریبا 40 فیصد تک کمی کا امکان ہے۔سویا بین کی پیداوار میں 20 فیصد اور گندم کی پیداوار 45 فیصد کم ہوسکتی ہے۔ مچھلی کے کاروبار سے وابستہ افراد کو 20 فیصد پیداوار میں کمی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان میں درختوں کی پیداوار میں 10فیصد تک کمی کا امکان ہے۔دنیا میں سب سے زیادہ آفات کے خطرے کی سطح کو ماپنے کے نظام انفارم رسک انڈیکس کی طرف سے 2024 میں جاری کی گئی رینکنگ کے مطابق پاکستان 191ممالک میں سے 10ویں نمبر پر ہے جب کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے خطرات کا شکار ممالک میں پاکستان پانچویں نمبر پر ہے۔ رواں سال ویسے ہی پنجاب کا کسان بہت پریشان ہے ۔پنجاب میں سب سے زیادہ گندم کی کاشتکاری ہوتی ہے مگر اس سال گندم کے ریٹس کے اتار چڑھاو نے کسانوں کو بہت متاثر کیا ہے جس میں بعض کا کیا ہے کہ آئندہ گندم کی کاشتکاری نہیں کریں گے۔
منور شہزاد مسیحی کا کہنا ہے کہ ’’ کہتے ہیں کہ اس سال گندم کے ریٹس کی وجہ سے یہاں کے تمام زمینداروں اور کھیتوں میں کام کرنے والے ہزاروں لوگوں کو بہت مشکلات کا سامنا رہا ہے۔ اس سال گندم کی فصل بہت اچھی ہوئی مگر حکومت نے گندم کی خرید کا ریٹ بہت کم دیا۔اس سے جہاں بڑے زمینداروں کو نقصان ہوا وہاں جو لوگ ہمارے کھیتوں میں کام کرتے ہیں گندم کی کٹائی سے لے کر گوداموں تک پہنچانا انہیں سب سے زیادہ نقصان ہوا۔منور شہزاد کہتے ہیں کہ ان کی فصلوں میں زہادہ تر مسیحی لوگ ہی کام کرتے ہیں ۔یہ لوگ اپنی مزدوری تو لیتے ہی ہیں مگر ساتھ ساتھ کھیتوں سے گندم اکٹھی کر کے فروخت کرتے ہیں ۔
گندم کی کم قمیت سے انہیں بھی نقصان ہو ا ہے۔ زرعی پالیسیوں کا براہ راست اثر کسانوں اور مزدوروں کی زندگیوں پر پڑتا ہے۔ اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ معاشی مسائل صرف ایک طبقے کو متاثر نہیں کرتے بلکہ پوری معاشرے کو متاثر کرتے ہیں۔
نومبر 2024 اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونائیٹڈ نیشنز فریم ورک کنونشن آن کلائمٹ چینج کے زیر انتظام آذربائیجان کے دارالحکومت باکو میں کانفرنس آف پارٹیز ’’ کوپ 29 ‘‘ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے شرکت کی۔اس کوپ میں موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا مقامی حل تلاش کر کے اس پر عمل درآمد کے لیے علاقائی اور عالمی شراکت داری کو فروغ دینا بھی کانفرنس کے بنیادی مقاصد میں شامل تھے۔موسمیاتی تبدیلیوں کا مسئلہ عالمی سطح پر ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے اور اس سے نمٹنے کے لیے کلائمٹ فنانسنگ ناگزیر ہے۔ ترقی یافتہ ممالک جو کہ زیادہ تر کاربن کے اخراج کے ذمہ دار ہیں، انہیں ترقی پذیر ممالک کو مالی مدد فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹ سکیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ وعدے عملی طور پر پورے نہیں ہو رہے۔
دنیا پور سےتعلق رکھنے والی ہی آسیہ کا خاندان بھی کئی سالوں سے کاشتکاری سے وابستہ ہے۔مگر ان کا شمارچھوٹے کاشتکاروں میں ہوتا ہے۔آسیہ بتاتی ہیں کہ وہ زمین کے ایک چھوٹے سے ٹکرے پر موسمی سبزیوں کی کاشتکاری کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ان کے مطابق موسمی سبزیاں کاشت کرنےکا یہ فائدہ ہوتا ہے کہ جب فصل تیار ہو تو منڈی میں روز کےروز دام میں وہ فروخت ہو جاتی ہے ۔ہمارے پاس نہ تو بڑے گھر ہیں اور نہ ہی گودام جو ہم گندم اور کپاس جیسی بڑی فصلوں کی کاشتکاری کر سکیں۔
اصل میں آسیہ پریشان کیو ں ہے؟ وہ کہتی ہیں کہ ہمارا خاندان چونکہ موسمی سبزیوں کی کاشتکاری سے وابستہ ہے وہاں ہی موسمی تبدیلیوں کے باعث ہم پریشان بھی ہیں۔ہم نے ستمبر کے آخری میں ٹماٹر، کھیرے، گوبھی اور پالک، اگاتی تھیں۔جن سبزیوں کے بیچ موسم سرما کے حساب سے لگائے تھے وہی موسم گرم ہونے کی وجہ زیادہ پیدواری کا سبب نہ بن سکے۔
فصل تیار ہونے کےبعد وزن کے حساب سے فروخت ہوتی ہے مگر موسمی تبدیلی کی وجہ ایک تو فصل زیادہ نہیں ہوئی دوسرا سبزیوں کے وزن پر بھی اثر پڑا ہے۔راجہ جہانگیر سیکرٹری موحولیات پنجاب کا کہنا ہے کہ ’اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پنجاب کا کسان اس وقت موسمی تبدیلی کی وجہ بہت پریشان ہے۔ابھی بھی وقت ہے کہ ہم کسانوں کو جدید ٹیکنالوجی کی آگاہی دیں تاکہ اس کو مد نظر رکھتے ہوئے وہ کاشتکاری کے طریقوں کو مزید بہتر کر سکیں۔موسیمیاتی تبدیلی کو مد نظر رکھتے ہوئے پنجاب حکومت کو اب کسانوں کو آگاہی کے لئے ہر فصل کی بیجوائی سے پہلے امدادی کمیپوں میں ٹرینگ دینی چاہیے ‘‘۔
موسمی تبدیلیوں کا مسئلہ بڑھتا جا رہا ہے اور اس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو کسانوں کو جدید زرعی تکنیکوں سے آگاہ کرنا ہوگا اور انہیں موسمی تبدیلیوں کے اثرات سے نمٹنے کے لیے تیار کرنا ہوگا۔