فوجی عدالتوں میں سویلین کے ٹرائل کے خلاف انٹرا کورٹ اپیلوں پر سماعت میں جج آئینی بینچ نے کہا کہ اے پی ایس حملے میں گٹھ جوڑ موجود تھا تو فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا؟ ملٹری کورٹس کی موجودگی کو تسلیم کرتے ہیں مگر ہم نے مخمل میں لگے پیوند کا جائزہ لینا ہے۔
جسٹس امین الدین کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے سات رکنی آئینی بینچ نے آج بھی فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل پر سماعت کی۔ جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس مسرت ہلالی، جسثس نعیم اختر افغان اور جسٹس شاہد بلال حسن بھی بینچ کا حصہ ہیں۔
وزارت دفاع کے وکیل خواجہ حارث نے آج عدالت میں دلائل پیش کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی فیصلوں میں ملٹری کورٹس تسلیم شدہ ہیں، آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا گٹھ جوڑ ہو تو ملٹری ٹرائل ہوگا، ملٹری کورٹ میں آرمی ایکٹ کے تحت جرم کا ٹرائل ہوتا ہے، بات سویلین کے ٹرائل کی نہیں ہے، سوال آرمی ایکٹ کے تحت ارتکاب جرم کے ٹرائل کا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ جرم کے گٹھ جوڑ سے کیا مراد ہے، جس پر خواجہ حارث نے جواب دیا کہ گٹھ جوڑ سے مراد جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ کیا گٹھ جوڑ کے ساتھ جرم کا ارتکاب کرنے والے کی نیت بھی دیکھی جائے گی۔ جسٹس امین الدین بولے کہ ملزم ملٹری ٹرائل میں جرم کی نیت نہ ہونے کا دفاع لے سکتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ملزم کہہ سکتا ہے کہ میرا یہ جرم کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ خواجہ حارث نے کہا کہ اگر جرم کا تعلق آرمی ایکٹ سے ہے تو ٹرائل فوجی عدالت کرے گی۔
دوران سماعت وکیل وزارت دفاع خواجہ حارث نے 21ویں آئینی ترمیم کیس کے فیصلے کا حوالہ دیا تو جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ یہ ترمیم مخصوص مدت اور حالات میں کی گئی تھی، پشاور میں آرمی پبلک اسکول پر حملہ ہوا تھا، کینٹ ایریا میں آرمی اسکول پر حملہ ہوا، تب بھی ٹرائل فوجی عدالت میں ممکن نہیں تھا، دہشتگردوں کا فوجی عدالت میں ٹرائل کرنے کے لیے آئین میں ترمیم کرنا پڑی، عدالتی فیصلے میں دفاع پاکستان پر بھی روشنی ڈالی گئی ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ فیصلے کے مطابق دفاع پاکستان میں دہشتگردی اور جنگی صورتحال دونوں کا ذکر ہے، زمانہ امن، حالت جنگ اور دہشتگردی کی صورت میں ملکی دفاع کی نوعیت مختلف ہے۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ جرم کی نوعیت سے طے ہوتا ہے ٹرائل کہاں چلے گا، اگر سویلین کے جرم کا تعلق آرمڈ فورسز سے ہو تو ٹرائل ملٹری کورٹ میں جائے گا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم نیت کو بھی دیکھ سکتے ہیں کہ جرم کرنے والے کا مقصد کیا تھا، کیا جرم کا مقصد ملک کے مفاد کے خلاف تھا۔ خواجہ حارث نے نشاندہی کی کہ عدالت کا پوچھا گیا سوال شواہد سے متعلق ہے، سپریم کورٹ براہ راست شواہد کا جائزہ نہیں لے سکتی۔
جسٹس محمد علی مظہر بولے کہ جرم کرنے والے کی نیت کیا تھی، یہ ٹرائل میں طے ہوگا۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ میں مانتا ہوں شواہد کی بنیاد پر ہی نیت کو جانچا جائے گا، لیکن پہلے بنیادی اصول تو طے کرنا ہے۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جسٹس حسن اظہر رضوی صاحب نے ایک سوال کیا تھا کہ جی ایچ کیو اور ایئر بیس کراچی پر حملے کے کیس ملٹری کورٹس میں کیوں نہیں گئے، اس سوال کا جواب 21ویں آئینی ترمیم فیصلے میں موجود ہے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ 21ویں آئینی ترمیم کیس میں جی ایچ کیو حملہ، ایئر بیس حملہ، فوج پر حملے، عبادت گاہوں پر حملوں کا تفصیلی ذکر ہے، 21ویں آئینی ترمیم جنگی صورتحال کے لیے کی گئی تھی۔
خواجہ حارث نے دلائل دیے کہ 2 ون ڈی ون کا سیکشن 1967 سے آرمی ایکٹ میں شامل ہے، آج تک کے عدالتی فیصلوں میں اس شق کی توثیق کی گئی، 21 ویں ترمیم والے بینچ نے 2 ون ڈی ون کو تسلیم کیا، آئین کے آرٹیکل 8 کی ذیلی شق 3 میں بنیادی حقوق کا جائزہ نہیں ہوسکتا۔
جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سانحہ آرمی پبلک اسکول میں گٹھ جوڑ موجود تھا، جس پر خواجہ حارث نے تسلیم کیا کہ اے پی ایس حملے کے وقت گٹھ جوڑ بالکل موجود تھا۔
خواجہ حارث نے دلائل پیش کیے کہ ایک گٹھ جوڑ یا تعلق کسی فوجی افسر اور دوسرا فوج سے متعلقہ جرم سے ہوتا ہے۔ جسٹس جمال مندوخیل نے پوچھا کہ اے پی ایس حملے کے وقت آرمی ایکٹ موجود تھا۔
خواجہ حارث نے جواب دیا کہ آرمی ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ سانحہ آرمی پبلک اسکول کے وقت بالکل موجود تھا، جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ گٹھ جوڑ اور آرمی ایکٹ کے ہوتے ہوئے بھی فوجی عدالت میں ٹرائل کیوں نہیں ہوا، فوجی عدالت میں دہشتگردوں کے ٹرائل کے لیے آئین میں ترمیم کیوں کرنا پڑی۔
خواجہ حارث نے کہا کہ ترمیم میں ڈسپلن اور فرائض کی انجام دہی سے ہٹ کر بھی کئی جرائم شامل کیے گئے تھے۔
جسٹس حسن اظہر رضوی بولے کہ سینیٹ کے سابق چیئرمین 21ویں ترمیم کو ووٹ دے کر روئے بھی تھے، ان کے آنسو بھی تاریخ کا حصہ ہیں۔ جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ووٹ نہ دیتے تو زیادہ سے زیادہ سیٹ چلی جاتی۔
جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ رضا ربانی نے خود عدالت میں بتایا تھا کہ ان کے ہاتھ پاؤں بندھے ہوئے تھے، ان کی 18ویں آئینی ترمیم کے لیے بہت خدمات ہیں، وہ بااصول آدمی ہیں، ان کا ووٹ دے کر رونا سمجھ آتا ہے، انہیں علم تھا کہ وہ انہوں نے دراصل کیا کیا ہے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ووٹ دینے کے بعد دو سال تک وہ ناراض بھی رہے تھے۔ بعدازاں، عدالت نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کردی۔