پاکستان میں پولیوکے خلاف جنگ کی تاریخ عزم واستقامت کی بے شمار کہانیوں سے بھری ہوئی ہے، جہاں خاندانوں اورفرنٹ لائن ورکرز کی قربانیاں نمایاں ہیں۔ تاہم، اس تاریخ میں ایسے مواقع بھی شامل ہیں جو ان اہلِ خانہ کے دروازوںپردستک دیتے رہے، مگروہ ان سے فائدہ اٹھانے سے محروم رہے۔
یہ حقیقت جھٹلائی نہیں جاسکتی کہ پولیوسے متاثرہ افراد کا دردصرف ان کے والدین اور دیکھ بھال کرنے والے ہی صحیح طورپرمحسوس کرسکتے ہیں۔تاہم، افسوس کا پہلویہ ہے کہ بچوں کوقطرے نہ پلانے پر ہونے والا پچھتاوانہ توبیماری کے اثرات کومٹاسکتاہے اورنہ ہی بچوں کی صحت کوبحال کرسکتاہے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پولیوسے متاثرہ بچوں کے بیشتروالدین کو اس کا ادراک بہت دیرسے ہوتا ہے۔
خروٹ آباد،کوئٹہ کے 24سالہ بہادرطالبِ علم آموخان خروٹی کے الفاظ آج بھی میرے ذہن میں گونجتے ہیں۔ آموخان اخروٹی بتاتے ہیں کہ کس طرح چلنے کی صلاحیت سے محروم ہونے کے بعد، وہ اپنی والدہ سے یہ سوال کرتے تھے کہ آیا انہوں نے کبھی پولیو ٹیموںکوانھیں پولیوکے قطرے پلانے کی اجازت دی تھی؟ ان کی والدہ کا جواب ہمیشہ ’’نہیں‘‘ ہوتاتھا۔ویکسین نہ ملنے کے سبب دونوں ٹانگوں سے معذورہونے والے آمونے کئی مشکلات کا سامنا کیا، جن میں اسکول بس تک پہنچنے کے لئے مدد کی ضرورت سے لے کراپنے خوابوں کی تکمیل کے محدودمواقع شامل ہیں۔ اس کے علاوہ، سماجی بدنامی کا سامنا بھی ایک تلخ حقیقت ہے۔ کھیلوں میں کامیاب ہونے اورسماجی سرگرمیوںمیں بھرپور شرکت کے باوجود، آج بھی انھیں’’معذور‘‘اور’’پولیوسے متاثرہ‘‘کے مستقل لیبل سے نوازاجاتاہے۔
اسی طرح، مہمند ضلع کے برکت شاہ، جن کی بیٹی حسنا،پولیوکے باعث معذورہوئی، نے بیٹی کی ویکسینیشن میں تاخیرپراپنے افسوس کا اظہارکیا اوروالدین سے اپیل کی کہ وہ پولیوویکسین کو سنجیدگی سے لیں اورکہا،’’انتظارنہ کریں، کیونکہ پولیوعمربھرکی معذوری کاباعث بنتاہے اور اس کا کوئی علاج نہیں‘‘۔
ان تجربات پر غورکرتے ہوئے، میں 2024میں ان 69بچوںکی حالتِ زار پرگہرے افسوس کا اظہارکرتی ہوں،جوویکسین نہ ملنے سے مختلف وجوہات کی بناء پراس مرض کا شکارہوئے۔ ان وجوہات میں والدین کا انکار، کمیونٹی کی طرف سے بائیکاٹ، ناقص صحت کے نظام، غذائیت کی کمی، اورصفائی وحفظان صحت کے مسائل شامل ہیں۔
پولیوکے خلاف جنگ پاکستان کی ہرگلی، محلے اوریونین کونسل میں جاری ہے۔ ہمیں اس مہم کوکامیاب بنانے کے لئے پاکستانی عوام کے بھرپورتعاون کی ضرورت ہے۔ جنوبی خیبرپختونخوامیں کیسز کی زیادہ تعداد، جوخیبرپختونخواکے کُل 21کیسوںمیں سے19کیسزپرمشتمل ہے، اور قلعہ عبداللہ میں، جہاں بلوچستان کے 27 کیسز رپورٹ ہوئے،خاص طورپرتشویش کاباعث ہیں۔ سندھ میں19کیسزجبکہ پنجاب اوراسلام آبادسے ایک ایک کیس رپورٹ ہونے کے بعد،مجموعی تعداد69تک پہنچ گئی ہے۔
ضلع ڈیرہ اسماعیل خان، جہاں 2024میںسب سے زیادہ پولیوکے کیسز(10کیسز)رپورٹ ہوئے ہیں، ایک ایسی راہداری کا حصہ ہے جودیگراضلاع جیسے ٹانک(5کیسز)، لکی مروت(2کیسز)،بنوں،کرک، اورکوہاٹ(2کیسز)تک پھیلا ہوا ہے، اور ان تمام علاقوں میں پولیوکی منتقلی کے واضح آثارنظرآرہے ہیں۔گزشتہ چھ سالوں کا جائزہ لیاجائے تویہ علاقے، جن میں جنوبی اور شمالی وزیرستان بھی شامل ہیں، پولیوکی منتقلی کے گڑھ بن چکے ہیں، جہاں کئی سالوں سے پولیوکی منتقلی کا سلسلہ جاری ہے۔ 2019میں، بنوں میں26کیسز، لکی مروت میں32کیسز، اور دیگراضلاع جیسے ڈیرہ اسماعیل خان اورٹانک میں بھی متعدد کیسزرپورٹ ہوئے تھے۔
ان علاقوںمیں وائرس کی موجودگی صحت کی ناکافی سہولیات،ویکسین کے حوالے سے تحفظات، ناقص صفائی، اورسیکورٹی چیلنجزکی وجہ سے ہے جو ویکسین ٹیموں کوان بچوںتک پہنچنے سے روکتے ہیں، جن کو خطرہ ہے۔ اسی طرح کراچی، کوئٹہ اورپشاورکے روایتی پولیوکے گڑھ میں بھی رکاوٹوںکا سامنا کرناپڑتا ہے۔ یہ علاقے جو افغانستان سے جُڑے ہوئے ہیں، ’منتقلی کے انجن‘ کے طورپرکام کرتے ہیں، جوپاکستان بھر میں یہاں کی آبادیوں کی نقل وحرکت، صحت کی خدمات کی کمی، اوربچوںکی ناقص غذائیت کی وجہ سے وائرس کومنتقل کرتے ہیں۔
اگرچہ یہ چیلنجزبہت بڑے ہیں، لیکن یہ ایسے نہیں کہ ان پرقابونہ پایاجاسکے۔ پاکستان انسدادِ پولیو پروگرام نے حالیہ برسوں میں نمایاںپیش رفت کی ہے۔ ناکامیوں کے باوجود، جس میں2014میں کیسز میں اضافے شامل ہے، پروگرام نے 2017-18تک پولیو کیسز کوایک ہندسے تک کم کرنے میں کامیابی حاصل کی، تاہم 2019-20میںکیسزمیں دوبارہ اضافہ نے پیشرفت میں تاخیرکی جوزیادہ ترپشاورمیں ایک پُرتشدد واقعے کے بعدپولیومہمات کے معطل ہونے کی وجہ سے تھی اورجس کی وجہ سے غلط معلومات پھیل گئیں۔
بدقسمتی سے، غفلت کے عنصرنے وائرس کے دوبارہ پھیلاؤ کی راہ ہموارکی۔ یہ سلسلہ 2022میں جنوبی خیبرپختونخواسے شروع ہوا اور 2023 میں افغانستان سے ایک نئی قسم کے وائرس (YB3A)کے تعارف کے ساتھ شدت اختیار کرگیا۔ اس صورتحال نے مدافعت کی کمی کونمایاں کیا، جوخاص طورپرغیرقانونی تارکین وطن کے خلاف قومی مہم کے دوران زیادہ خطرے والی آبادیوں کی نقل مکانی اورپولیوویکسینیٹرزسے بچوںکوچھُپانے کی عادت کی وجہ سے مزید بگڑگئیں۔
وزیرِاعظم کی براہِ راست قیادت میں، پولیوپروگرام کوحکومت کی اعلیٰ ترین سطح پربھرپور حمایت حاصل ہے، جوپولیوکے خاتمے کے لئے وزیرِاعظم کے پختہ عزم اورذاتی شمولیت کوظاہرکرتی ہے۔ اس عزم کامقصد تمام ضروری وسائل، ہم آہنگی، اورپالیسی معاونت کوبروئے کارلاکرپولیووائرس کوپاکستان سے مکمل طور پر ختم کرنا ہے۔ 2024میں وائرس کے پھیلاؤ کے بعد، وزیرِاعظم نے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی ہے تاکہ موجودہ صورتحال کاجامع تجزیہ کیا جاسکے اورمقامی منتقلی اورسرحدپارنقل وحرکت سے لاحق خطرات کے تدارک کے لئے ٹھوس اورقابلِ عمل حکمتِ عملی تیارکی جاسکے۔ یہ اعلیٰ سطحی عزم اس قومی ترجیح کو اُجاگرکرتا ہے کہ ہربچے کوپولیوسے تحفظ فراہم کیا جائے اورپولیوفری پاکستان کے ہدف کویقینی بنایا جائے۔
سال 2024کے وسط میں، انسدادِ پولیو پروگرام نے ’’6-4-2روڈمیپ‘‘ متعارف کرایا، جونگرانی اورویکسینیشن کی سرگرمیوں کومضبوط بنانے کے لئے ایک اہم اسٹریٹجک اقدام ہے۔ اس منصوبے کے تحت، ستمبر سے دسمبر2024کے دوران تین بڑی مہمات کاانعقاد کیاگیا، جن میںستمبرمیں3کروڑ30لاکھ سے زائد بچوں، اکتوبرمیں4کروڑ50لاکھ سے زائد بچوں، اور دسمبرمیں4کروڑ47لاکھ سے زائد بچوں کوملک بھرمیں ویکسین فراہم کی گئی۔ ان مہمات میں تقریباً4لاکھ فرنٹ لائن ورکرز نے حصہ لیا، جو گھرگھرجاکر بچوں کوویکسین دینے کی ذمہ داری بخوبی نبھاتے ہیں۔ اس اقدام کے ذریعے فرنٹ لائن ورکرز کی صلاحیتوں کوبہتربنانے اورسیکسینیشن مہمات کے معیار کومزید بلندکرنے کے لئے بھرپور کوششیں کی گئیں، تاکہ ہرسطح پر موثر جوابدہی اورکامیابی کویقینی بنایا جا سکے۔
اگرچہ ان مہمات نے امید کی نئی کرن پیدا کی ہے، لیکن اہم چیلنجز بدستورموجودہیں۔ افغانستان کے ساتھ مربوط مہمات تاحال عملی شکل اختیار نہیں کرسکیں، جبکہ جنوبی خیبرپختونخوااورقبائلی علاقوں میں مہمات مقامی رکاوٹوں کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑی ہیں۔ اس کے علاوہ، بعض فرنٹ لائن ورکرز کواب بھی دوردرازاورمشکل رسائی والے علاقوں میں بچوںتک پہنچنے میںمشکلات کا سامنا ہے۔
پولیوکاموثرطریقے سے مقابلہ کرنے کے لئے روٹین امیونائزیشن کے لئے ایک مربوط حکمتِ عملی ضروری ہے۔ ای پی آئی اورپولیوپروگرام کے درمیان ہم آہنگی پرخاص توجہ دی گئی ہے، جس کے لئے ایک خصوصی کمیٹی مشترکہ منصوبوں کے نفاذ کی نگرانی کررہی ہے تاکہ ترجیحی علاقوں سے نمٹاجاسکے۔ پولیو سے متاثرہ افراد، جن کے پاخانے میں پولیو وائرس موجودہوتا ہے، دوسرے بچوں کے لئے خاص طور پر اُن بچوں کے لئے خطرہ بن سکتا ہے جن کی روٹین امیونائزیشن نہیں ہوئی اورجن کی قوتِ مدافعت کمزورہے، کیونکہ وائرس نکاسیِ آب اورصفائی کے نظام کے ذریعے پھیل سکتا ہے، جوپاکستان میں اکثرناقص حالت میں ہوتے ہیں۔ ان پیچیدہ چیلنجز کامقابلہ کرنے کے لئے، پروگرام نے اپنے پیغامات اورشراکت داری کوخاص طورپرجہاں وائرس کے مرکزی گڑھ ہیں وہاں بڑھایا ہے تاکہ آگاہی پیدا کی جاسکے، غلط معلومات کامقابلہ کیا جاسکے، اور مقامی آبادیوں کے اثرورسوخ والے افراد کے ذریعے وسیع ترکمیونٹی کی شمولیت کویقینی بنایا جا سکے۔
جنوری سے جون 2025تک، توجہ پولیووائرس کامکمل خاتمہ کرنے پرمرکوز رہے گی جب منتقلی کی شرح کم ہو، اوراضافی ویکسینیشن کی حکمتِ
عملیوں کا مقصدزیادہ خطرے والی آبادیوں کوشام کرنا ہوگا، جن میں خانہ بدوش اور واپس آنے والے خاندانوں کوشامل کیا جائے گا۔افغانستان کے ساتھ سرحدپرنگرانی کومزید سخت کیا جارہا ہے تاکہ وائرس کے کسی بھی نمونے کوپکڑاجاسکے، جبکہ انکار، جعلی نشان لگانے اوررہ جانے والے بچوں کی کم رپورٹنگ کومانیٹرکرنے کے لئے سخت نظام قائم کئے گئے ہیں۔
موبائل ٹیکنالوجی کااستعمال ویکسینیشن کی پیشرفت کومانیٹراوراپ ڈیٹ کرنے کے لئے پروگرام میں شامل کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ مخصوص اہداف پرمبنی کمیونٹی کی شمولیت کی کوششیں، جو قابل اعتماد مقامی اثرورسوخ والے افراد کی زیرنگرانی ہوں، ویکسینیشن مہمات میں اعتماد پیدا کرنے کے لئے استعمال کی جا رہی ہیں۔
آخرکار، پولیو سے پاک پاکستان کی منزل ہرشہری کی اجتماعی کوششوں کی مرہونِ منت ہے۔ والدین کواپنے بچوںکوویکسین فراہم کرنے کی ذمہ داری اٹھانی ہوگی، جبکہ مقامی کمیونٹی کویہ یقینی بنانا ہوگا کہ ہر بچہ، ہرجگہ محفوظ رہے۔ میڈیاکاکرداربھی اس عمل میںانتہائی اہمیت رکھتا ہے تاکہ درست معلومات فراہم کی جا سکیں اورویکسین کے حوالے سے پھیلنے والی افواہوں کوغلط ثابت کیا جاسکے۔
پولیو سے پاک پاکستان صرف ایک خواب نہیں ہے________ یہ ایک ذمہ داری ہے جوہم سب پرعائد ہوتی ہے۔ صرف ایک ساتھ کام کرکے ہی ہم آئندہ نسلوں کواس تباہ کُن بیماری سے بچا سکتے ہیں۔
یہ بلاگ وزیراعظم کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عائشہ رضا فاروق کی جانب سے لکھا گیاہے جو کہ سابقہ سینیٹر بھی ہیں۔