سفارت کاری کے پروٹوکول میں خواتین اور مردوں کے درمیان مصافحہ (ہینڈ شیک) کا انحصار بنیادی طور پر متعلقہ ممالک کی ثقافت، روایات اور سفارتی پروٹوکول پر ہوتا ہے خواتین سفارت کار کیلئے عمومی طور پر تین اصول قائم کئے گئے ہیں۔
اگرعالمی پروٹول میں خواتین سفارت کار شریک ہوتی ہیں تو وہ میزبان ملک کی روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے عمومی طور پر مصافحہ کرتی ہیں، دوسرا اصول جس کو ذاتی ترجیح سمجھا جاتا ہے اس میں خواتین سفارت کار اپنی ذاتی یا مذہبی ترجیحات کے مطابق مصافحہ کرتی ہیں یا پھرمتبادل اشارے استعمال کرتی ہیں، تیسرا سماج کا کلچر ہے جس میں خواتین سفارت کار نے مصافحہ کا مقصد رسمی احترام ظاہر کرنا ہوتا ہےاس اصول کا سفارت کاری میں استعمال بہت عام ہے۔
عالمی پروٹول میں خواتین سفارت کار یا سٹیک ہولڈرز عمومی طور پر مصافحہ کرتی ہیں کیونکہ عالمی پروٹول میں مصافحہ (ہینڈ شیک) ایک قانونی قدغن ہے وہ کسی بھی کلچر سے ہوں انھوں نے مصافحہ (ہینڈ شیک) ہی کرنا ہوتا ہے بےنظیربھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم تھیں انھوں نے اپنے دورِ حکومت میں کئی عالمی رہنماؤں سے ملاقات کے دوران کئی مواقع پر مرد حضرات سے مصافحہ کیا لیکن ان کایہ عمل ان کے سفارتی آداب اور پروٹوکول کے مطابق تھا۔
اسی طرح پاکستان کی سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بین الاقوامی سطح پر مختلف سربراہان اور وزرائے خارجہ سے ملاقاتوں کے دوران مرد رہنماؤں سے مصافحہ کیا اقوام متحدہ میں پاکستان کی مستقل مندوب کے طور پر کام کرنے والی ڈاکٹر ملیحہ لودھی نے کئی بین الاقوامی ملاقاتوں میں مرد رہنماؤں سے مصافحہ کیا مغربی ممالک میں مصافحہ ایک عام سفارتی اور سماجی روایت ہے خواتین اور مرد بغیر کسی جھجک کے مصافحہ کرتے ہیں۔
دوسرا اصول ذاتی ترجیح ہے سفارت کار خواتین چاہے عالمی پروٹول میں ہوں یا پھر سماجی پروٹول میں ہوں وہ ان کی ذاتی ترجیح ہوگی کہ وہ مصافحہ (ہینڈ شیک) کرتی ہیں یا احترم میں اشارے کو ترجیح دیتی ہیں لیکن زیادہ تر مسلم سفارت کار خواتین یا میزبان ملک کی روایات کا احترام کرتے ہوئے مصافحہ سے گریز کرتی ہیں اور متبادل طور پر ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ استعمال کرتی ہیں سفارت کاری میں ہر فرد میزبان ملک کی روایات اور سفارتی آداب کا احترام کرتا ہے اگر کسی ملک میں مصافحہ مناسب نہیں سمجھا جاتا تو اس کا متبادل طریقہ اپنایا جاتا ہے۔
تیسرا اصول سماجی احترام ہےاس میں عالمی پروٹوکول کے اصول نافذ نہیں ہوتے بلکہ یہاں میزبان ملک کا کلچر دیکھا جاتا ہے مغرب ممالک کی خواتین و مرد مصافحہ (ہینڈ شیک) کو ترجیح دیتے ہیں لیکن جب وہ کسی مسلم ممالک میں مہمان کے طور پر جاتے ہیں تو عمومی طور پر وہ وہاں کے کلچر کو ترجیح دیتے ہیں پاکستان میں سفارت کار خواتین سر میں دوبٹہ رکھتی ہیں تو مغرب ممالک سے آنے والی مہمان خواتین سفارت کار اپنے سر پر دوبٹہ رکھتی ہیں عرب ممالک میں جانے والی خواتین سفارت کار وہاں کے کلچر کے حساب سے مہمان کے طور پر جاتی ہیں۔
پاکستان کی کئی خواتین سفارت کار جو عالمی پروٹول میں مصافحہ کرتی ہیں، کلچر میں مصافحہ (ہینڈ شیک)کا متبادل طور پر ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ استعمال کرتی ہیں، میزبان ملک میں عالمی اور ذاتی ترجیح پروٹوکول استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ معاشرتی پروٹو کول استعمال ہوتا ہے، جیسے حناء ربانی کھر، بےنظیر بھٹواور ڈاکٹر ملیحہ لودھی عالمی پروٹوکول میں مصافحہ (ہینڈ شیک)کا استعمال کرتی تھیں۔سماجی پروٹول میں (ہینڈ شیک) کا متبادل طور پر ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ استعمال کرتی تھیں۔
کل سے ایک تصویر وائرل ہے جس میں پنجاب کی پہلی خاتون وزیراعلی مریم نواز نے متحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان کیساتھ ملاقات میں مصافحہ کا استعمال کیا،چین کے دورے میں بھی مریم نواز نے مصافحہ کا استعمال کیا لیکن وہ کیبنٹ یا پارلیمنٹ کے رہنماؤں کیلئے مصافحہ (ہینڈ شیک) کا استعمال نہیں کرتیں وہاں وہ ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ استعمال کرتی ہیں،اگرمریم نواز کیبنٹ یا پارلیمنٹ کے رہنماؤں کیلئے مصافحہ کا استعمال کرتیں تو یہ اصول نمبر دو یعنی ذاتی ترجیح میں شمار کیا جاسکتا تھالیکن ذاتی ترجیح کا استعمال میزبان ملک کیلئے نہیں ہوتا بلکہ مہمان کیلئے ہوتا ہے لہذا ذاتی اصول بھی یہاں نافذ نہیں کیا جاسکتا۔
اگر بالفرض مریم نواز باہر کسی ملک کی مہمان ہوتیں اور مصافحہ (ہینڈ شیک) کا استعمال کرتیں توعالمی پروٹول میں شمار ہونا تھا لیکن مریم نواز میزبان تھیں تو انھوں نے اپنے سماجی پروٹول کو فالو کرنا تھا جو انھوں نے ذاتی ترجیح پروٹول کو کسی حد تک استعمال کیا، میزبان ہمیشہ اپنا سماجی پروٹول استعمال کرتا ہے پاکستان کا معاشرتی پروٹول خواتین کا مصافحہ کرنا نہیں بلکہ ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ ہےمتحدہ عرب امارات کے صدر شیخ محمد بن زاید النہیان یہاں مہمان تھے اور وہ مہمان عالمی پروٹول میں نہیں تھے وہ کسی سمٹ میں آتے یا ریاستی دورے میں آتے تب اس بات کو تسلیم کیا جاسکتا تھا کہ وہ عالمی پروٹول میں ہیں تو مصافحہ (ہینڈ شیک) بنتا تھا لیکن مصافحہ (ہینڈ شیک)ایک ہاتھ کا استعمال دوسرے کیساتھ ہوتا ہےیعنی دائیں کیساتھ دائیں ہاتھ کا استعمال ہوگامریم نواز نے اس اصول کو بھی توڑ کر ڈبل ہینڈ شیک (Double Handshake) کا استعمال کیایہ مصافحہ قریبی تعلق، جذبات کے اظہار یا مضبوط تعلق کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔
مریم نواز نے سفارت کاری کے کئی اصولوں کو توڑا ہے ہلکا جھکاؤ یا دیگر احترام کا اشارہ کرنے کی بجائے ہنڈ شیک کا استعمال کیا ون ہینڈ شیک کی بجائے پھر ڈبل ہینڈ شیک کا استعمال کیا، ثقافتی پروٹول کی بجائے عالمی پروٹول کے قوانین کیخلاف ورزی کی،کیونکہ مہمان ریاستی پروٹوکول میں نہیں تھا ذاتی ترجیح کا پروٹول صرف اپنے مقصد کیلئے استعمال کیااس پر بھی پورا نہیں اترتیں، کوڈ ڈریسنگ میں اوور میک اپ کا استعمال کیا ڈبل ہینڈ شیک میں قریبی تعلق کا غلط تاثر دیا پھر دوسرا ہاتھ کلائی پر رکھ کر طاقت کا مظاہر ہ کیا،ڈبل ہینڈ شیک میں ایک ہاتھ اگر کلائی یا پھر بازو پر ہو تو اس کو پاور اور کنٹرول کے معنی میں سمجھا جاتا ہے ۔