میجر شبیر شریف شہید(نشانِ حیدر)کا53واں یومِ شہادت آج منایا جارہا ہے۔
65 اور 71 کی جنگوں میں میجرشبیرشریف کی بہادری ہمیں سکھاتی ہےکہ تعداد نہیں بلکہ مشکلات میں ایمان،عقیدت اورجرأت قوموں کو فتح یاب کرتی ہے،جرأت اوربہادری کا استعارہ بننے والےمیجرشبیر شریف 28 اپریل 1943ء کو ضلع گجرات کے گاؤں کُنجاہ میں پیدا ہوئے،میجر شبیر شریف نے اپریل 1964 میں کمیشن حاصل کیا اور انہیں پاسنگ آؤٹ پریڈ میں سب سے بڑے فوجی تربیتی اعزاز ''اعزازی شمشیر'' سے نوازا گیا
میجر شبیر شریف واحد فوجی جوان ہیں جنھیں دو بڑے فوجی اعزاز نشانِ حیدر اور ستارہ جرات عطاء کئے گئے،شبیرشریف پاک فوج میں اپنی پیشہ ورانہ خدمات کا سفر طےکرتے ہوئے اپریل 1970ء میں میجر کے رینک پر تعینات ہوگئے،3دسمبر1971میجر شبیر شریف (جنگ 1965کے ستارۂ جرأت) کو سلیمانکی ہیڈ ورکس کے بالمقابل دشمن کی حدود میں واقع ایک بلند ٹیلے پر قبضہ کرنے کا حکم ملا
آپ اپنےساتھیوں کی راہنمائی کرتے ہوئےدُشمن کی بارودی سرنگوں کو عبورکر کےمسلسل آگ برساتی آرٹلری اورمشین گنوں کے فائر کے درمیان سبونہ نہر کے پار جا پہنچے،اِس دلیرانہ حملے کے دوران آپ نے دُشمن کو اپنے مضبوط خندقوں سے نکل بھاگنے پر مجبور کر دیا،اس دوان43بھارتی فوجیوں کو ہلاک ،38کو جنگی قیدی اور4ٹینک تباہ کر دئیے
5اور6دسمبر کی درمیانی شب میجر شبیر نے4جاٹ رجمنٹ کے کمپنی کمانڈر میجر نارائن سنگھ کو دست بدست لڑائی میں ہلاک کیا۔
6دسمبر کو میجرشبیر شریف نےدشمن کا ایک اور جوابی حملہ پسپا کیا اور بذات ،خود ایک ریکائلس رائفل کےفائرسےکئی ٹینک تباہ کردئیے،اپنے مطلوبہ ہدف کے حصول اور پے در پے جوابی حملوں کو ناکام بناتے ہوئے بالآخر میجرشبیر شریف ایک بھارتی ٹینک کے گولے کا نشانہ بن کر شہادت کے اعلیٰ مقام پرفائز ہو ئے۔
میجر شبیر شریف شہید آپ کی اس بے مثال جرات اور بہادری کے صلے میں حکومت پاکستان نے آپ کو نشان حیدر کے اعزاز سے نوازا،انسان کی زندگی تو باعزت ہونی چاہیےلیکن موت بھی باوقار ہونی چاہیے۔
میجر شبیر شریف شہید (نشانِ حیدر)کا53واں یومِ شہادت پر دن کا آغاز مساجد میں قرآن خوانی اور دعاؤں کے ساتھ ہوا،علماء کرام نےشہید کے درجات کی سربلندی کے لئے خصوصی دعاؤں کا اہتمام کیا
علماء کرام نےاظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’شہداء کو بھولنے والی قوموں کا تاریخ میں نام لینے والا کوئی نہیں ہوتا،شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے۔