سن 1971 میں مشرقی پاکستان کے محاذ پر وسائل کے تناسب میں واضح کمی کے باوجود پاکستان آرمی کے جوانوں نے پاک بھارت سرحد پر اپنی جان ہتھیلی پر رکھے ملک کے دفاع کو مقدم رکھا۔
مشرقی پاکستان کے علاقے کمال پور کی سرحد پر دشمن کی جانب سے وقتا فوقتا حملوں کا سلسلہ جاری تھا۔ 31 جولائی 1971کو ازلی دُشمن بھارت نے توپ خانے کی مدد سے دہشتگرد تنظیم مکتی باہنی کی بٹالین سائز فورس کے ذریعے کمال پور میں پاکستان آرمی کی بارڈر پوسٹ کمال پور پر حملہ کیا۔
کمال پور کے دفاع کی ذمہ داری لیفٹیننٹ محمد علی کی قیادت میں 31 بلوچ رجمنٹ، ویسٹ پاکستان رینجرز اور رضاکاروں سمیت سپاہ کے پاس تھی۔ لیفٹیننٹ محمد علی 31 بلوچ رجمنٹ سے عارضی طور پر منسلک تھے مگر اس جانباز آفیسر نے مشکلات کے باوجود دفاعِ وطن کی خاطر اپنی خدمات رضاکارانہ طور پر انجام دیں۔
حملے کے آغاز پر لیفٹیننٹ محمد علی نے اپنی قائدانہ صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے جوانوں کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنے کا حکم دیا اور اپنی بہادری، حوصلے اور دانشمندی سے میدان جنگ میں دشمن کو اپنے فائری ہتھیاروں کی زد میں آنے تک فائر کو روکے رکھا۔
جب آپ کو یقین ہو گیا کہ دشمن مکمل طور پر پھنس چکا ہے تو آپ نے تمام موجود ہتھیاروں سے دشمن پر اچانک اورشدید حملہ کیا۔ لیفٹیننٹ محمد علی کی اس پیشہ ورانہ حکمت عملی کے پیش نظر دشمن کوبھاری جانی و مالی نقصان کے ساتھ پسپائی اختیار کرنا پڑی۔
پاکستان آرمی کے اس بہادرانہ دفاعی حملے اور فائرڈسپلن کے سبب دُشمن کے120فوجی جہنم واصل اور متعدد زخمی ہوئے جبکہ14مشین گنیں، راکٹ لانچرز، ریڈیو ٹرانسمیشن سیٹس اور26رائفلوں سمیت کثیر مقدار میں اسلحہ و گولہ بارود بھی قبضہ میں لے لیا گیا۔
لیفٹیننٹ محمد علی کی بہادری کی یہ کہانی کئی ان سنی داستانوں میں سے ایک ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف میں لکھی جائے گی۔