ایک تو تحریک انصاف نے پاکستان بھر سے احتجاج کا کہا تھا۔ یعنی یہ ایک قومی احتجاج ہوگا،دوسرا تحریک انصاف نے تین شرائط پیش کی تھیں- کیسز، کارکنوں کی رہائی اور الیکشن کا مینڈیٹ! تیسرا بشری بی بی نے اپنے کارکنوں کا خون گرماتے ہوئے یہ کہا تھا کہ ہم خان کو (زبردستی) آزاد کیے بغیر واپس نہیں آئیں گے چوتھا تحریک انصاف کا کہنا یہ تھا کہ احتجاج پر امن ہوگا۔
تو آئیے اس کا جائزہ لیتے ہیں:-
کیا یہ ایک قومی احتجاج تھا؟ اس کا جواب تو بالکل صاف اور واضح ہے کہ یہ قومی احتجاج نہیں تھا۔ نہ کوئی سندھ سے آیا، نہ کوئی آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سے آیا اور نا ہی کوئی پنجاب سے آیا۔ بلوچستان سے ایک ٹالی نے ضرور شمولیت کی۔ تو یہ ایک قومی یا عوامی احتجاج نہیں تھا بلکہ احتجاج میں شریک ہونے والی تقریبا تمام تعداد خیبر پختون خواہ سے تھی۔ تو یہ ایک قومی احتجاج نہیں تھا یہ ایک صوبائی احتجاج تھا وہ بھی محمود محدود پیمانے پر اور اس میں عوامی قوت سے کے ساتھ ساتھ سرکاری قوت کا بھی بے دریغ استعمال کیا گیا۔
اب تحریک انصاف کی تین شرطیں!! یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ ان تین شرائط کا کیا ہوگا کیونکہ ابھی تک ان میں سے کسی بھی شرط کے پر کوئی خاطرخواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
جہاں تک تعلق ہے بشری بی بی کے نعرے کا، تو مجھے اس میں کوئی شک نہیں کہ اس مطالبے پر تحریک انصاف بری طرح سے ناکام ہو جائے گی۔
ابھی تک کی اطلاعات کے مطابق پولیس کا ایک جوان شہید ہو چکا ہے جبکہ ایک سو سے زیادہ زخمی ہیں۔ مختلف مقامات پر پرتشدد مظاہرین نے ہتھیاروں، پتھروں اور سرکاری وسائل سے فراہم کی گئی ٹیئر گیس شیلز سے پولیس پر بھرپور تشدد کیا۔ جہاں پر بھی پولیس نے جتھوں کو روکنے کی کوشش کی وہاں پُرتشدد مظاہرین نے سرکاری اور نجی املاک کو نقصان پہنچایا۔ گاڑیوں کو آگ لگائی اور پولیس آفیسرز پر تشدد کیا اور وردی کی بے حرمتی کی۔ تو یہ احتجاج کسی بھی نقطہ نظر سے پرامن احتجاج نہیں تھا
اجمالی طور پر دیکھا جائے تو تحریک انصاف تمام پہلوؤں پر ناکام ہوئی ہے یا ناکام ہونے جا رہی ہے۔ ہاں اس کو سرکاری وسائل کی بھرپور مدد والا دھاوا ضرور کہا جا سکتا ہے۔