خود کو پاکستان اور عالم اسلام کے لیڈر کہلوانے والے بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے لیے امریکی کانگریس کے مزید ارکان نے اپنی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عمران خان کی قید کے معاملے پر اپنا کردار ادا کریں ۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس تمام مہم جوئی کے پیچھے نہ صرف یہ کہ کروڑوں ڈالرز کی لابنگ کارفرما ہے بلکہ عمران خان کے سابق سسر گولڈ سمتھ کی سرپرستی میں کام کرنے والی وہ طاقتور یہودی لابی بھی اس پلان میں شامل ہے جس کا ہدف یہ رہا ہے کہ پاکستان کو کس طرح سیاسی اور معاشی عدم استحکام سے دوچار کیا جائے ۔
9 مئی کے واقعات کے دوران پاکستان کی دفاعی تنصیبات کو جس منظم طریقے سے نشانہ بنایا گیا اور جس انداز میں پاکستانی ریاست کے اہم ستونوں کے خلاف منفی پروپیگنڈا کیا گیا وہ یہ ثابت کرنے کے لئے کافی تھا کہ یہ سب کچھ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم عالمی اور علاقائی سازش کا حصہ تھا ۔ سوشل میڈیا پر کروڑوں اربوں کی سرمایہ کاری کی گئی اور نئی نسل کو ریاست سے نہ صرف متنفر کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی بلکہ اسے باقاعدہ ریاست پر چڑھائی کی کوشش کی گئی جو کہ تاحال جاری ہے تاہم یہ سوال تو اٹھتا ہی ہے کہ امریکہ ، برطانیہ ، کینیڈا ، بھارت اور اسرائیل جیسے ممالک کو ایک ایسے پاکستانی رہنما کی فکر کیوں ہے جو کہ خود کو عالم اسلام کا لیڈر کہتا رہا ہے ؟ ۔ کیا یہ ممالک پاکستان اور اسلام کے حامی ہیں یا ان کو پاکستان کی بہت فکر ہے اس کا جواب ڈھونڈنا لازمی ہے ۔
پاکستان کی وزارت خارجہ متعدد بار واضح کرچکی ہے کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی کو اس میں مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی مگر پی ٹی آئی اور اس کے لیڈرز اپنے دعوؤں کے برعکس عالمی دباؤ ڈالنے کی پالیسی پر گامزن ہیں اور اس مقصد کیلئے انہوں نے جہاں ایک طرف عالمی میڈیا کو پاکستان کے خلاف استعمال کیا وہاں اس قسم کی مہنگی لابنگ سے بھی گریز نہیں کیا تاکہ ریاست کو پریشر میں لایا جاسکے ۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق گولڈ سمتھ کی بیٹی اور بانی پی ٹی آئی کی سابق اہلیہ جمائما خان اپنی ٹیم اور یہودی لابی کے ذریعے اس تمام مہم جوئی کی خود نگرانی کرتی آرہی ہے ۔ ایسے میں یہ سوال اٹھنا ایک فطری عمل ہے کہ جب وہ شرعی اور قانونی طور پر عمران خان کی اہلیہ ہی نہیں تو وہ اتنی بڑی مہم پر اتنی بڑی سرمایہ کاری کیوں کررہی ہیں ؟ اس تمام صورتحال سے اس تاثر کو مزید تقویت ملتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ جمائما گولڈ سمتھ کے ساتھ شادی ایک منظم پلاننگ میں شامل ایک پراجیکٹ تھا بلکہ طلاق کے بعد اس طرح کا سرگرم عمل ہونا بھی یہودی لابی کی ایک سازش اور پاکستان مخالف سرگرمیوں کا حصہ ہے ۔
عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہ پارٹی عمران خان کی حکومت کے خاتمے کو امریکہ کی سازش قرار دیتی رہی مگر اب مخالف سمت میں چلتے ہوئے اسی امریکہ اور اس کے اتحادیوں سے کھلے عام مدد بھی مانگ رہی ہے ۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں ہے کہ پی ٹی آئی نے جہاں ایک طرف 24 نومبر کو مزاحمت کا اعلان کردیا ہے وہاں دوسری جانب امریکہ کے ارکان کانگریس سے ایک اور خط کے ذریعے دباؤ ڈالنے کی کوشش کی گئی ۔ تلخ حقیقت تو یہ ہے کہ مذکورہ پارٹی بری طرح پھنسنے کے علاوہ ایکسپوز بھی ہوگئی ہے اور باغیانہ طرز سیاست نے اس پارٹی کو ایک بار پھر ریاست کے خلاف کھڑا کردیا ہے ۔ اس تمام صورتحال کا نتیجہ کیا نکلتا ہے یہ تو وقت بتائے گا تاہم یہ بات بلکل واضح ہے پاکستانی ریاست اس قسم کے ہتھکنڈوں سے مرعوب نہیں ہوگی اور اپنے اس اصولی موقف پر قائم رہے گی کہ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے اور کسی کو مداخلت کی اجازت نہیں دی جائے گی۔