مودی سرکار کے دور اقتدار میں مسلمانوں پر ہندو انتہا پسندوں کی طرف سے بلااشتعمال حملے بھارت میں معمول بن چکے ہیں۔ بابری مسجد کی شہادت سے شروع ہونے والا سلسلہ اب طول پکڑ چکا ہے۔
بھارتی میڈیا کے مطابق اتراکھنڈ اور ہماچل پردیش میں انتہاء پسند ہندو تنظیموں کی جانب سے مساجد کو مسمار کرنے کا مطالبہ لیکر ایک مہم شروع ہو چکی ہے۔ اس مہم میں شملہ اترکاشی میں مساجد کو گرانے جانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
مساجد کو گرانے کیلئے انتہاء پسند ہندوؤں نے دعویٰ کیا ہے کہ شملہ میں سنجولی کے مقام پر تعمیر شدہ مسجد وقف زمین پر تعمیر کی گئی، اترکاشی میں انتہاء پسند ہندو گروپ نے مسجد کو غیر قانونی قرار دیکر اسے گرانے کیلئے تین دن کا الٹی میٹم بھی دے دیا۔
انتہا پسند ہندوئوں نے اپنے مطالبات کیلئے روایتی احتجاجی مظاہرہ بھی کیا جس میں اشتعال انگیز مسلم مخالف نعرے اور گوشت کی دکانیں بند کرنے کے مطالبات بھی شامل تھے۔
مقامی مسلم وکیل حلیم بیگ کا اس تنازع پر کہنا ہے کہ یہ قانونی طور پر زمین کے مناسب ریکارڈ کے ساتھ تعمیر کی گئی تھی حلیم بیگ نے بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ کشیدگی کے پیش نظر مسلم کمیونٹی کے لیے پولس تحفظ کا مطالبہ کیا۔
اسی دوران اتراکھنڈ کے ضلع چمولی میں ایک مسلم نوجوان کیخلاف الزامات کے بعد انتہاء پسند ہندوئوں نے تھوڑ پھوڑ کی اور مسلمانوں کی دکانوں کو بھی لوٹا، ٹہری گڑھوال میں مسلم دکانداروں کو "لو جہاد" کے الزامات کی وجہ سے بھاگنے پر مجبور کیا گیا۔
ہندوؤں نے کشیدگی کو مزید بڑھانے کیلئے ایک مسلمان کی دکان کے اندر لڑکی سے جنسی زیادتی کا الزام عائد کردیا جس سے حالات مزید کشیدہ ہو گئے، مقامی پولیس مذکورہ بالا واقعات سے نمٹنے میں مکمل طور پر ناکام نظر آئی۔
بی جے پی کے مقامی رہنما لکھپت بھنڈاری نے واقعہ کو مزید بگاڑنے کے لیے اتراکھنڈ میں ایک ریلی نکالی جس میں مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے سیکرٹری اندریش میخوری نے بی جے پی کے رہنما کی جانب سے ریلی اور مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی مذمت کی ہے، اندریش میخوری کا کہنا تھا کہ، بی جے پی رہنما کی جانب سے اس طرح کی نفرت انگیز تقریر قابل مذمت ہے انہیں مسلمانوں سے معافی مانگنی چاہئے۔
مسلمانوں کیخلاف جاری اس نفرت انگیز مہم اور مساجد کو مسمارکرنے کے واقعات نے بھارت کے کروڑوں مسلمانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کردیا ہے، اتراکھنڈ میں جاری ان نفرت انگیز اور پرتشدد واقعات کی وجہ سے مسلمان اپنا علاقے تک چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔
اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کو بھارت میں مسلمانوں اور ان کی عبادت گاہوں کیخلاف ہندوئوں کی اس نفرت انگیز مہم کا نوٹس لینا چاہئے۔