بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ایگزیکٹو بورڈ کی جانب سے پاکستان کے لیے 7 ارب ڈالر کی منظوری کے بعد قرض پروگرام پر آئی ایم یاف کی شرائط اور تجاویز سامنے آگئی ہیں۔
آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ اجلاس کے بعد ڈپٹی ایم ڈی اور قائم مقام صدر کنجی اوکامیرا نے کہا کہ حالیہ معاشی بہتری کے باوجود پاکستانی معیشت کو کئی اہم چیلنجز درپیش ہیں۔
ڈپٹی ایم ڈی آئی ایم ایف کے مطابق محصولات میں اضافے کیلئے ٹیکس کے دائرے کو بڑھانا ہوگا، صنعتکاروں، ڈیویلپرز اور بڑے زمینداروں سے ٹیکس وصولی کرنی ہوگی، ذراعت سمیت کم ٹیکس دینے والے شعبوں پر منصفانہ بوجھ ڈالنا ضروری ہوگا۔
خصوصی شعبوں کے نظام کا خاتمہ اور دیگر شعبوں کو بھی نیٹ میں لانے کی ضرورت ہے، غیر ملکی زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ جاری رہنا چاہیے، آئی ایم ایف نے گورننس میں بہتری اور اینٹی کرپشن اداروں کو مضبوط کرنے پر بھی زور دیا ہے۔ توانائی شعبے میں بھی اصلاحات جاری رکھنا ہوگی۔
آئی ایم ایف کے مطابق پائیدار معاشی ترقی کیلئے مسلسل کوششوں اور اصلاحات کی ضرورت ہے، مالیاتی استحکام کیلئے محصولات میں اضافے اور محتاط اخراجات پر زور دیا گیا ہے، اس سے انسانی سرمایہ، بنیادی ڈھانچے، اور سماجی اخراجات کیلئے وسائل پیدا ہونگے۔
ڈپٹی ایم ڈی آئی ایم ایف کے مطابق پچھلے سال پالیسیوں کے نفاذ نے اقتصادی استحکام کی بحالی میں اہم کردار ادا کیا، قلیل المدتی خطرات میں کمی اور اعتماد کی بحالی میں مدد ملی، ترقی کا عمل بحال اور بیرونی دباؤ میں کمی آئی، گزشتہ سال زرمبادلہ زخائر میں اضافہ، افراط زر میں نمایاں کمی آئی ہے۔ توانائی کے ٹیرف میں بروقت ایڈجسٹمنٹ نے سرکلر ڈیبٹ کو مستحکم کرنے میں مدد دی۔
آئی ایم ایف وفاقی اور صوبائی ادارتی انتظامات کو مضبوط بنانے، ٹیکس کے نظام کو بہتر بنانا ہوگا، عوامی سرمایہ کاری کے انتظام کو زیادہ مؤثر بنانے پر توجہ مرکوز کرنا ہوگی۔ اسٹیٹ بینک ایک مناسب سخت مالیاتی پالیسی بھی برقرار رکھ سکتا ہے، مہنگائی میں کمی کی وجہ سے پالیسی ریٹ میں بھی کمی لائی جا سکتی ہے۔ سرکاری اداروں میں اصلاحات لانے اور غیر ضروری مراعات ختم کرنے کی ضرورت ہے۔