بلوچستان کے سردار میر ہزار خان مری کی زندگی پر تحریر کردہ کتاب کی تقریب رونمائی جمعرات کو اسلام آباد کے پاک چائنہ سنٹر میں ہوئی جس میں گورنر بلوچستان، وزیر اعلی بلوچستان اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی و ترقی احسن اقبال سمیت ملک کی اہم سیاسی اور سماجی شخصیات نے شرکت کی۔
کتاب "میر ہزار خان مری۔ مزاحمت سے مفاہمت تک" کے مصنف معروف کالمسٹ اور کہانی نویس عمار مسعود ہیں اور اس پر تحقیق خالد فرید نے کی ہے۔
یہ کتاب بلوچستان سیاسی منظر نامے میں لکھی ایک بائیو گرافی ہے جس میں ہزار خان کی زندگی کے تغیر تبدل کے حوالے سے بلوچستان کی سیاست اور موجودہ حالات کی کشیدگی کا ذکر ملتا ہے۔
میر ہزار خان کا شمار ان لوگوں میں ہوتا تھا جنہوں نے ہمیشہ ریاست کے خلاف مزاحمت کی۔ آئین کو تسلیم نہیں کیا۔
روس کی جارحیت سے متاثر ہو کر مری قبیلے کے لوگ افغانستان چلے گئے۔ بیس سال یہ پاکستان کے خلاف کاروائیاں کرتے رہے۔ روس کی تقسیم کے بعد یہ لوگ در بدر ہو گئے۔ نہ افغانستان ان کو قبول کرنے کو تیار تھا نہ پاکستان میں انکے لئیے گنجائش تھی۔ بے نظیر شہید کے دور حکومت ان لوگوں کے لیئے عام معافی کا اعلان کیا گیا۔ یہ وطن اس احساس سے واپس آئے کہ انکی جدوجہد بے ثمر گئی۔ پھر ہزار خان نے ریاست سے مفاہمت کا سفر شروع کیا
سیاست کو شیوہ بنایا ۔ تمام سیاسی رہنماؤں سے ملاقات کی ۔ بلوچستان کی ترقی کے لیے بہت کام کیے۔وقت ایسا بدلا کہ وہی ہزار خان جو ریاست کے آئین کو تسلیم نہیں کرتے تھے انہی کے پوتے اب فوج میں اعلی افسر ہیں۔
یہ کہانی ہے اس کتاب کی۔ بلوچستان کی سیاسی مدوجزر کی۔ نفرت سے محبت کی جانب سفر کی۔
کتاب کے مصنف عمار مسعود نے اس موقع پر خطاب میں کہا کہ آج بلوچستان کے نوجوان کنفیوژ ہیں۔ انہیں بہت سی طاقتیں گمراہ کرنے پر لگی ہوئی ہیں۔ ان سے التماس یہی ہے کہ اس داستان کر پڑھیں اور وطن سے محبت کریں ۔
ان کا کہنا تھا کہ میر ہزارخان کی زندگی کا درس آج کے بلوچ نوجوان تک پہنچانے کے لیئے اب یہ حکومت کا بھی فرض ہے کہ یہ کتاب ہر گھر تک پہنچے اور اس لازوال داستان پر فلم بھی بنے اور اس پر ترانے بھی لکھیں جائیں۔