چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ کے معاملات میں شفافیت آئی ہے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا، میں نے یہ چیز بدل دی ہے، اب مجھے کاز لسٹ نہیں بھیجی جاتی۔ اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔
سپریم کورٹ آف پاکستان میں نئے عدالتی سال کی تقریب کے سلسلے میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب میں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ گالم گلوچ برداشت نہیں کریں گے، کیس پر جتنی تنقید کرنی ہے کریں ذاتیات پر نہ جائیں، مثبت دلائل دیں سراہیں گے، مفروضوں یا ذرائع پر بات کرنے کی ضروت نہیں، کیس کا فیصلہ مفروضوں پر نہیں شواہد اور ثبوت پر ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہو گا، اب توخود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں جانب کون سے ججز کیس سنیں گے، پریکٹس اینڈ پروسیجر بل کے ذریعے ہی مقدمے لگائے جاتے ہیں، ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ضرور ہوتا ہے، اتنا تعین ہوجاتاہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن کیا ہوگا، اب یہ کسی کی قسمت ہے کہ کس کا کیس کہاں لگ گیا۔
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ سب سے پہلا کام بطور چیف جسٹس فل کورٹ بلانا ہی کیا تھا، اس سے پہلے 4 سال تک ہم سب ججز ایسے ملے ہی نہیں تھے، اس میٹنگ میں فیصلہ کیا تھا مفاد عامہ کے مقدمات براہ راست نشرہوں گے، عام طور پر عوام وہی دیکھتے سمجھتے تھے جو کوئی ٹی وی چلائے، ہم نے فیصلہ کیا کہ عوام خود ہماری کارکردگی دیکھیں، عوام خود دیکھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں ہم میں شفافیت ہے یا نہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہر جج کا کوئی نہ کوئی رجحان ہوتا ہے، اتنا تعین ہو ہی جاتا ہے کہ فلاں جج کے پاس کیس لگا تو پراسیکیوشن کا وزن دیں گا یا نہیں، یہ پوری دنیا میں ہوتا ہے، لوگوں نے 30،40 سال میں بہت کچھ سیکھا ہوتا ہے، کسی نہ کسی طرف اتنے تجربے میں رجحان بن جاتا ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ پرانے صحافی کہتے چیف جسٹس نے مقدمہ نہیں لگایا۔ اب مقدمات چیف جسٹس نہیں لگاتا کمیٹی لگاتی ہے، تبصرہ کیجیے لیکن سچ بولیے اور سچ بتائیے۔ مفروضہ پر نہیں آپ کی ذمہ داری کہ سچ آگے پہنچائیں۔ یہ بات میں بطور جج نہیں کہہ رہا۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مزید کہا کہ میں نے سپریم کورٹ کی سماعتیں براہ راست نشر کرنے کا آغاز بھی کیا، پہلا مقدمہ جو براہراست دکھایا گیا وہ پریکٹس ایند پروسیجر ایکٹ کا تھا جو فل کورٹ نے ہی سنا، اس فیصلے کے بعد اختیار چیف جسٹس سے لے کر 3 ججز کو سونپے گئے، پہلے بینچ دیکھ کر ہی بتا دیا جاتا تھا کہ کیس کا فیصلہ کیا ہوگا، اب تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہوتا کہ میرے دائیں بائیں کون سے ججز کیس سنیں گے۔9 روز بعد میرا بطور چیف جسٹس پاکستان ایک سال مکمل ہوجائے گا، میں جب چیف جسٹس بنا تو 4 سال میں پہلی مرتبہ فل کورٹ اجلاس بلایا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ کیا اب کیس لگنے سے پہلے پتہ چل جاتا ہے کہ فیصلہ کیا ہوگا، اگر نہیں پتہ چلتا فیصلہ کیا ہوگا اسکا مطلب ہے شفافیت آئی ہے، پہلے جمعرات کو چیف جسٹس کاز لسٹ کی منظوری دیتے تھے، کاز لسٹ میں تبدیلی کا اختیار چیف جسٹس کا تھا اب یہ اختیار ختم کردیا گیا ہے، رجسٹرار کا کام ہے مقدمات سماعت کے لیے مقرر کرنا، اب کاز لسٹ چیف جسٹس کے پاس نہیں آتی۔
انہوں نے کہا کہ اگر کوئی قانون بنیادی حقوق سے متصادم ہو تو اسے کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔ دوسروں کا احتساب کریں اور عدلیہ اپنا احتساب نہ کرے تو فیصلوں کی اہمیت نہیں رہتی۔ سپریم کورٹ کے ایک جج پر الزام لگا، کھلی عدالت میں کیس چلایا گیا۔ سپریم کورٹ نے اپنے ہی ایک جج کو برطرف کیا۔مارگلہ ہلز نیشنل پارک کیس کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ چیف جسٹس کو 3 ہزار سی سی مرسڈیز بینز کی ضرورت نہیں تھی، لاہور رجسٹری میں کھڑی بلٹ پروف لینڈ کروزر بھی حکومت کو واپس بھیجی گئی، حکومت کو کہا ان گاڑیوں کو بیچ کر عوام کے لیے بسیں خریدے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ، سپریم کورٹ میں ڈیپوٹیشن پر آنے والے تمام افراد کو واپس بھیجا گیا ہے، ڈیپوٹیشن پر آنے والے 3 سال سے زیادہ کسی جگہ تعینات نہیں رہ سکتے، جن کی مدت مکمل ہوچکی تھی انہیں واپس بھیجا گیا ہے، ڈپوٹیشن پر آنے والوں کی وجہ سے سپریم کورٹ ملازمین کی ترقی رک جاتی تھی، ڈیپوٹیشن پر آنے والوں کی واپسی سے سپریم کورٹ کے 146 ملازمین کی ترقی ہوئی78 نئی تعیناتیاں ہوئیں، اس کے علاوہ سپریم کورٹ میں خالی آسامیوں کو بھی فل کیا گیا، عوام چاہتی ہے ان کے مقدمات جلد نمٹائے جائیں اور ان کا پیسہ بچ سکے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ چیف جسٹس ہاؤس میں مور رکھے ہوئے تھے، چیف جسٹس کا موروں سے کیا تعلق؟ موروں کو رہا کروا کر کلر کہار بھیجا، کہتے ہیں جنگل میں مور ناچا کس نے دیکھا؟ موروں کو جنگلوں میں ہی ناچنا چاہیے۔کیس مینجمنٹ کمیٹی بنائی جس میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس منیب اختر شامل تھے۔جسٹس منصور علی شاہ کیس مینجمنٹ کے حوالے سے اپنی رپورٹ دیدی ہے۔ جسٹس منیب اختر کی رپورٹ ابھی تک موصول نہیں ہوئی۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں ججز کی تعداد مکمل کرکے ایڈہاک ججز کو تعینات کیا گیا۔ صرف پلاننگ سے کیسز کم نہیں ہوتے عدالت میں بیٹھ کر مقدمات سننے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ میں تاریخیں دینے کا رواج ختم ہوچکا ہے۔ جسٹس مظہرعالم کے بھانجے کا انتقال ہوا ہے آج وہ اس لئے موجود نہیں ہیں۔ ایڈہاک ججز نے چھٹیوں کے دوران 245 کیسز نمٹائے ہیں۔ آئندہ نئے عدالتی سال میں بھی جہاں سے اچھی آرا ملے اس پر عمل کریں۔
واضح رہے کہ جسٹس منصورعلی شاہ اور جسٹس منیب اختر فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے، جسٹس منصور علی شاہ بیرون ملک ہونے کی وجہ سے شریک نہیں، ایڈہاک ججزجسٹس مظہر عالم میاں خیل بھی فل کورٹ ریفرنس میں شریک نہیں ہوئے۔