اسلام آباد میں انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن (آئی ایل او) کے دفتر میں ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان (ای ایف پی) اور آئی ایل او کے اشتراک سے ایک اعلیٰ سطحی مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ یہ اجلاس بی آر آئی ڈی جی منصوبے کے تحت میڈیا لیڈرز کے ساتھ منعقد کیا گیا، جس میں پاکستان میں جبری مشقت کے خاتمے اور منصفانہ بھرتی کے طریقوں کو فروغ دینے میں میڈیا کے کردار پر بات چیت کی گئی۔
آئی ایل او کے کنٹری ڈائریکٹر، گیر ٹی ٹونسٹول نے اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے لیے یورپی یونین کی جنرلائزڈ اسکیم آف پریفرنسز پلس (جی ایس پی+) کا درجہ برقرار رکھنے کے لیے ٹیکسٹائل صنعت کے مزدوروں کے حالات کو بہتر بنانا ناگزیر ہے۔ انہوں نے کہا کہ "پاکستانی معیشت کا انحصار بڑی حد تک ٹیکسٹائل برآمدات پر ہے، اس لیے اس شعبے میں مزدوروں کے حالات کو بہتر بنانا ضروری ہے تاکہ جی ایس پی+ کا درجہ برقرار رکھا جا سکے۔" انہوں نے مزید کہا کہ 27 بین الاقوامی معیاروں پر عمل درآمد، جن میں مزدوروں کے حقوق، انسانی حقوق اور ماحولیاتی تحفظ شامل ہیں، انتہائی اہم ہے۔
اس مشاورتی اجلاس میں ملک بھر کے 25 بڑے میڈیا اداروں کے ایڈیٹرز، نیوز ڈائریکٹرز، اور بیورو چیفس نے شرکت کی۔ بحث و مباحثہ میں اس بات پر توجہ مرکوز کی گئی کہ میڈیا کس طرح جبری مشقت کے حوالے سے آگاہی پیدا کر سکتا ہے، عوامی رائے کو متاثر کر سکتا ہے، اور پالیسی اصلاحات کے لیے اقدامات اٹھا سکتا ہے تاکہ غیر رسمی شعبے میں جبری مشقت کا خاتمہ کیا جا سکے اور منصفانہ بھرتی کے طریقے اپنائے جا سکیں۔
آئی ایل او کے نیشنل پروجیکٹ کوآرڈینیٹر ڈاکٹر فیصل اقبال نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا جبری مشقت کے خلاف آگاہی بڑھانے اور منصفانہ بھرتی کے طریقوں کے فروغ میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔ "میڈیا جبری مشقت اور لیبر مائیگریشن کے حوالے سے عوامی تصورات کو شکل دینے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے،".میڈیا کی ذمہ داری کو اجاگر کیا کہ وہ اس مسئلے پر سنجیدہ اور بامعنی اقدامات کرے۔
ایمپلائرز فیڈریشن آف پاکستان کے سیکریٹری جنرل سید نذر علی شاہ نے میڈیا مینیجرز کو اس تقریب کے مقصد سے آگاہ کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس ورکشاپ کا مقصد میڈیا پروفیشنلز کو جبری مشقت اور منصفانہ بھرتی کے حوالے سے گہرائی سے سمجھنا تھا۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ ان مسائل کے حل کے لیے اجتماعی کارروائی کی ضرورت ہے، خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں۔
پاکستان میں جبری مشقت ایک بڑا مسئلہ ہے، خاص طور پر غیر رسمی شعبے میں۔ مختلف اندازوں کے مطابق، ملک میں 3.4 سے 4.3 ملین افراد جبری مشقت کی صورتحال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ آئی ایل او کے تازہ ترین عالمی تخمینے کے مطابق، دنیا بھر میں تقریباً 28 ملین افراد جبری مشقت سے متاثر ہیں، جس سے سالانہ تقریباً 236 ارب ڈالر کے غیر قانونی منافع کمائے جاتے ہیں۔
میڈیا ٹرینر عون ساہی نے صحافیوں کے لیے جبری مشقت اور منصفانہ بھرتی کی کوریج پر منعقد کیے گئے چھ تربیتی سیشنز کا جائزہ پیش کیا۔ یہ سیشنز یو ایس ڈی او ایل کے مالی تعاون سے چلنے والے بی آر آئی ڈی جی پروجیکٹ کے تحت منعقد کیے گئے تھے، جن کا مقصد صحافیوں کو ان پیچیدہ مسائل کی موثر رپورٹنگ کے لیے ضروری مہارتوں سے لیس کرنا تھا۔ ساہی نے اس بات پر زور دیا کہ میڈیا کو غیر رسمی اور رسمی شعبوں میں جبری مشقت کے خاتمے کے لیے بااختیار بنایا جائے، جہاں استحصالی طریقے سب سے زیادہ پائے جاتے ہیں۔
میڈیا مینیجرز نے آئی ایل او کی کاوشوں کو سراہا اور اس مسئلے پر مزید مشغول ہونے کی شدید دلچسپی ظاہر کی۔ انہوں نے آئی ایل او کے عہدیداروں کے ساتھ زیادہ کثرت سے ملاقاتیں کرنے اور جبری مشقت اور منصفانہ بھرتی پر رپورٹنگ کے لیے اضافی تربیت کی تجویز دی۔ اس کے علاوہ، انہوں نے پاکستان کے میڈیا لینڈ سکیپ میں ان مسائل کو مرکزی دھارے میں لانے کے لیے میڈیا آؤٹ لیٹس کے اتحاد کی تجویز بھی دی۔