پہلی بار پاکستان میں بھٹوں پر کام کرنیوالے بچوں پر "’انڈر دی بلیز" فلم کا آغاز ہوگیا ہے۔
پاکستان اینیمیشن کے ایک روایتی انداز میں قدم رکھنے جا رہا ہے جو اس دور میں بہت کم ہےآنے والی اینیمیٹڈ مختصر فلم ’انڈر دی بلیز‘ کے ساتھ جس کی کہانی پاکستان میں انسانی حقوق (چائلڈ لیبر) کے بارے میں آگاہی پر مبنی ہے یہ پاکستان کے اہم مسائل میں سے ایک ہے جس پر روشنی ڈالی جانی ہےاور یہ پہلی فلم ہے جس میں بھٹہ پر چائلڈ لیبر کے مسئلے کا احاطہ کیا گیا ہے۔
انڈر دی بلیز فلم کی ہدایت کاری اویس شوکت نے کی ہے جو نیشنل کالج آف آرٹس لاہور میں فائن آرٹس کے انڈرگریجویٹ طالب علم ہیں اویس شوکت ایک خود دار اور محنتی فنکار ہے جس نے 2019 میں صرف 15 سال کی عمر میں ڈیجیٹل آرٹ میں اپنے سفر کا آغاز کیا۔ وہ اپنے ڈیجیٹل آرٹ اور پینٹنگ کی مہارت کے لیے مشہور ہے۔
فلم کی اصل کہانی اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرنے والے سینکڑوں اور ہزاروں بچوں کی حقیقی زندگی کے واقعات پر مبنی ہے یہ ان تمام بچوں کی باہمی کہانی ہے جسے اویس اور ان کی ٹیم نے کئی بھٹوں کا دورہ کرنے اور مختلف خاندانوں سے مختلف کہانیاں سننے کے بعد لکھی ہے۔
انڈر دی بلیز فلم کی کہانی کے متعلق اویس شوکت نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم جب بھی کسی بھٹے پر جاتے تھے، وہاں بچے کام کرتے تھےلیکن وہ ہمیں دیکھ کر ہمیشہ غائب ہو جاتے تھے ہر کوئی یہ سوچ کر خوفزدہ تھا کہ ہم کسی بھی سرکاری محکمےسے ہیں۔
چائلڈ لیبر پر بننے والی فلم کے اصل ہدایت کار اویس شوکت کا کہنا تھا کہ ہم نے مشکلات کا حل نکالا اور میرے خیال میں اینیمیشن ہی واحد طریقہ ہے جس میں آپخود سے لکھ کر کہانی میں جان ڈال سکتے ہیں جسے صرف چند لوگ ہی دیکھ سکتے ہیں،پاکستان میں آرٹ محنتی ثقافت ہے لیکن اینیمیشن ان میں سے ایک نہیں ہےجب کہ ہم مختلف ڈیجیٹل شعبوں میں داخل ہو رہے ہیں، اس جدید دور میں زیادہ تر فنکار اس میں قدم کیوں نہیں رکھ رہے ہیں؟
اویس شوکت نے بتایا کہ فلم پری پروڈکشن کے مرحلے میں ہے اور ٹیم اسٹوری بورڈ پر کام کر رہی ہے۔ تقریباً تمام تصوراتی ڈیزائن بشمول کریکٹر ڈیزائننگ، لوکیشن ڈیزائننگ، اور اسکرپٹ مکمل ہو چکا ہےاس فلم کو بنانے کا بنیادی مشن ہمارے لوگوں میں جدید زندگی میں چائلڈ لیبر میں اضافے اور پھر مشکل زندگی کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے اس فلم کا اگلے سال مختلف بین الاقوامی فلمی میلوں میں پریمیئر کرنے کا ارادہ ہے۔