سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ فیض حمید کو فوجی تحویل میں لیتے ہوئے فیلڈ کورٹ مارشل کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ ( آئی ایس پی آر ) کے مطابق سپریم کورٹ آف پاکستان کے احکامات کی تعمیل کرتے ہوئے پاکستان آرمی کی جانب سے ٹاپ سٹی کیس میں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف کی جانے والی شکایات کی درستگی جانچنے کے لیے ایک تفصیلی انکوائری کی گئی، انکوائری کے نتیجے میں ان کے خلاف پاکستان آرمی ایکٹ کے تحت مناسب تادیبی کارروائی کا آغاز کیا گیا ہے ۔
تاہم، سپریم کورٹ نے لیفٹیننٹ جنرل ( ر ) فیض حمید کیخلاف کیا احکامات جاری کئے تھے اس حوالے سے تفصیلات سامنے آگئی ہیں۔
سپریم کورٹ کا حکمنامہ
سپریم کورٹ نے ٹاپ سٹی کے مالک کنور معیز کی درخواست پر 8 نومبر کو سماعت کی تھی، نجی سوسائٹی ٹاپ سٹی کے مالک نے فیض حمید پر 7 الزامات عائد کئے، درخواست گزار کے مطابق فیض حمید نے اہلکاروں کے ذریعے گھر پر چھاپا ڈلوایا۔
عدالت عظمیٰ کے حکمنامہ میں کہا گیا کہ درخواست گزار کے مطابق انہیں اور ان کے اہلخانہ کو حراست میں رکھا گیا، درخواست گزار کے مطابق انہیں ان کی جائیدادوں سے بھی محروم کیا گیا، درخواست گزار کے مطابق ٹاپ سٹی کی منتقلی کیلئے بھی دباؤ ڈالا گیا۔
حکمنامہ میں کہا گیا کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل کے مطابق درخواست گزار وزارت دفاع سے رجوع کر سکتے ہیں، درخواست گزار کی جانب سے عائد الزامات سنگین نوعیت کے ہیں، الزامات درست ثابت ہوئےتو یہ حکومت اورافواج کیلئے بدنامی کا باعث ہوں گے۔
حکمنامہ کے مطابق ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے یقین دہانی کرائی وزارت دفاع کو درخواست آئی تو سنجیدگی سے جائزہ لیا جائے گا۔
عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ وزارت دفاع کو درخواست دی گئی تواس کا قانون کے مطابق جائزہ لیا جائے۔