بنگلا دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ کا مطالبہ زور پکڑ گیا، دارالحکومت ڈھاکا اور دیگر شہروں میں پرتشدد مظاہروں کے دوران پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں 50 سے زائد شہری جاں بحق اور درجنوں زخمی ہوگئے۔
بنگلا دیشی عوام ایک بار پھر سڑکوں پر آگئے ہیں اور وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد کے گرد گھیرا تنگ ہوگیا ہے جبکہ مظاہرین کی جانب سے ان کے استعفے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔
دارالحکومت ڈھاکا میدان جنگ بن گیا ہے اور موبائل اور انٹرنیٹ سروس ایک بار پھر معطل کرکے عوامی لیگ کی حکومت نے ملک بھر میں کرفیو نافذ کردیا ۔
ڈھاکا اور دیگر شہروں میں پرتشدد مظاہرے جاری ہیں اور مشتعل عوام نے گارمنٹس فیکٹریوں اور بسوں کو آگ لگا دی ۔
پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوگئے جبکہ عوامی لیگ کے کارندے بھی خواتین پر ڈنڈے برساتے رہے اور مظاہرین پر براہ راست گولیاں چلاتے نظر آئے۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق ڈھاکا میدان جنگ کا منظر پیش کر رہا ہےاور عوام شیخ حسینہ واجد کے استعفیٰ سے کم کوئی بات ماننے کو تیار نہیں۔
ڈھاکا کی طرف لانگ مارچ کا اعلان
مظاہرین نے ڈھاکا کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا اور مظاہرے کے منتظمیں نے کا کہنا تھا کہ پیر کو ڈھاکا کی جانب لانچ مارچ کیا جائے گا۔
مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا حکم
بنگلا دیشی وزیر اعظم نے مظاہرین سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کا حکم دیا ہے اور قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں اس معاملے میں حکام کو سختی کی ہدایت کی ہے۔
شیخ حسینہ واجد کا کہنا تھا کہ یہ مظاہرین طلبا نہیں دہشت گرد ہیں، شرپسندوں سے آہنی ہاتھوں کے ساتھ نمٹا جائے۔
آرمی چیف کی اپیل
بنگلا دیش کے آرمی چیف نے عوام سے پر امن رہنے کی اپیل کی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بنگلا دیشی فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے، آئندہ بھی فوج عوام اور ریاست کے مفاد کو مقدم رکھے گی۔
3 دن کی تعطیل
حکومت نے 3 دن کے لیے عام تعطیل کا اعلان بھی کیا ہے۔
مظاہروں کا پس منظر
گزشتہ ماہ طلبا نے کوٹہ سسٹم کے خلاف احتجاج شروع کیا تھا جو دیکھتے ہی دیکھتے عوامی تحریک کی صورت اختیار کر گیا۔
طلبا کے احتجاج کے دوران 200 سے زائد شہریوں کو پولیس اور عوامی لیگ کے کارکنوں نے گولیاں مار کر قتل کیا تھا جس کے بعد طلبہ نے اپنے ساتھیوں کو انصاف ملنے تک احتجاج جاری رکھنے اور سول نافرمانی کی کال دے رکھی ہے ۔