قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کےمسودے کی منظوری دے دی۔
اسلام آباد میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین رانا ارادت خان کی صدارت ہونے والے اجلاس میں قائمہ کمیٹی نے الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری دی ، الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کے حق میں 8 جبکہ مخالفت میں 4 ووٹ پڑے ہیں ، ایک رکن شاہدہ اختر علی نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا،قومی اسمبلی میں یہ بل کل بلال اظہر کیانی اور زیب جعفر نے پیش کیا تھا،ممکنہ طور پر جمعے کے روز اجلاس میں ترمیمی بل قومی اسمبلی سے پاس کرایا جائے گا۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے آئین اور قانون میں ہر چیز واضح ہے،آئین سب سے اہم ہے، جس کا آرٹیکل 51 بہت واضح ہے،آزاد امیدوار کیلئے 3دن میں کوئی نہ کوئی سیاسی جماعت جوائن کرنا ہوگی،مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ کے حوالے سے بھی قانون و آئین واضح ہے،الیکشن ایکٹ اور الیکشن قواعد میں بھی ہر چیز کی وضاحت کردی گئی ہے،آپ کو سب بتاؤں گا،بطور وزیر اپنے ضمیر اور قانون کی بات کروں گا۔
الیکشن ایکٹ ترمیمی بل کی منظوری کے بعد اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ قانون سازی پارلیمنٹ کا حق ہے اور تشریح عدالت کا حق ہے،عدالت نیا آئین و قانون نہیں لکھ سکتی، ہم پارلیمنٹ کے اندر مداخلت کی اجازت نہیں دے سکتے،کسی کو لگتا ہے کہ یہ عدالتی فیصلے میں مداخلت ہے تو لگتا رہے،قانون سازی پارلیمنٹ کا اختیار ہے عدالت کا نہیں،بل میں کوئی نئی چیز نہیں،آئینی و قانونی نکات کی وضاحت کی ہے،بل کے تحت آزاد امیدوار نے کوئی پارٹی جوائن کرلی تو تبدیل نہیں کرسکتا۔
وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ اگر اس پارٹی قیادت کے احکامات کی خلاف ورزی کرے گا تو نااہل ہوگا،آزاد رہنا چاہے تو رہ سکتا ہے،لیکن جماعت جوائن کرلی تو پھر تبدیلی نہیں،آئین کا آرٹیکل 51 اور 106 بہت واضح ہے،کوئی انہونی چیز نہیں لارہے،آئین کے تحفظ کا حلف اٹھایا ہے،بل کی حمایت کرتا ہوں،مخصوص نشستیں بھی دی گئی فہرست پر ہی ملیں گی ہٹ کر نہیں،درخواست ہے کہ قائمہ کمیٹی اس مجوزہ بل پر فیصلہ کرے،کسی بھی ادارے کو آئین دوبارہ تحریر کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے۔
تحریک انصاف کے رہنماء علی محمد خان نے بحث کے دوران وفاقی وزیر قانون سے استفار کیا کہ بتایا جائے کہ یہ بل آئندہ کیلئے ہی ہے یا ماضی سے اطلاق ہوگا؟مزید کہا کہ یہ وفاقی وزیر قانون کے دل کا بل ہے جو حکومتی رکن لائے ہیں۔
پی ٹی آئی رہنماء علی محمد خان کے سوال پر وزیر قانون کا کہنا تھا کہ یہ کوئی فوجداری قانون نہیں،موجود قانون کی وضاحت کا بل ہے،اس بل کا ماضی سے اطلاق ہوسکتا ہے،یہ اراکین پارلیمنٹ پر ہوگا کہ وہ اس کا نفاذ کب سے چاہتے ہیں؟
رکن تحریک انصاف علی محمد خان کا کہنا تھا کہ حکومت مخصوص نشستوں کاکیس ہارنے کے بعد یہ بل لائی ہے،ہماری جماعت کو کیوں انتخابی نشان سے محروم رکھا گیا؟ہمارے اراکین کیلئے 3دن کا وقت عدالتی فیصلے سے شروع ہوگا،الیکشن کمیشن نے کس قانون کے تحت ہمارا انتخابی نشان چھینا تھا؟عدالت نے تو کہہ دیا ہے کہ پی ٹی آئی پہلے موجود تھی اور اب بھی ہے۔
اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ کیس میں وفاق فریق نہیں تھا،اٹارنی جنرل نے نوٹس پر معروضات دیں،مخصوص نشستیں سنی اتحاد کونسل کے لیے مانگی گئی تھیں،خود پی ٹی آئی اراکین نے بھی سنی اتحاد کونسل سے رجوع کیا،80 سے زائد ایم این ایز نے سنی اتحاد کونسل میں شمولیت کی درخواست دی،مخصوص نشستیں اس جماعت کو ملتی ہیں جس نے ایک جنرل سیٹ جیتی ہو،پشاور ہائی کورٹ میں بھی سنی اتحاد کونسل گئی تھی۔
وزیر قانون کا مزید کہنا تھا کہ کاش تحریک انصاف سنی اتحاد کونسل میں جانے کی بجائے عدالت جاتی،82 ارکان قومی اسمبلی نے نکاح سنی اتحاد کونسل سے کرلیا،عمر ایوب آزاد امیدوار ہیں،سنی اتحاد کونسل نے اپوزیشن لیڈر بنا دیا،کچھ گڑھے تحریک انصاف نے خود کھودے ہیں،اب سپریم کورٹ میں بعض جماعتوں کے اراکین اپیل میں گئے ہیں،ججز چھٹیوں پر چلے گئے حالانکہ چھٹیاں مختصر کی جاسکتی تھیں،چھٹیوں کی وجہ سے آج سپریم کورٹ میں مقدمات 60 ہزار ہوگئے ہیں۔
رکن قومی اسمبلی بلال اظہر کیانی نے کہا کہ یہاں ممبران کی نیت کی بات ہو رہی ہے، سپریم کورٹ نے اس جماعت کو سیٹیں دیں جس نے مانگی ہی نہیں ہے۔
علی محمد خان نے وزیر قانون سے سوال کیا کہ آپ کو قانون بنانے کا خیال پہلے سے تھا یا عدالتی فیصلے کے بعد آیا؟کس قانون کے تحت ایک سیاسی جماعت سے انتخابی نشان چھینا؟
قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کے چیئرمین رانا ارادت خان نے رکن تحریک انصا ف علی محمد خان سے کہا کہ اس پر بات کرنے کیلئے الیکشن کمیشن کے لوگوں کو الگ سے بلا لیں گے، جس پر علی محمد خان نے کہا کہ آج ہی بات کر لیں،الیکشن کمیشن والے بڑے لوگ ہیں قابو نہیں آتے۔
سیکرٹری الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے پارلیمانی امور کی کمیٹی کی جانب سے منظور ہونے والے بل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ بل کو خود دیکھے، ہماری کوئی رائے نہیں، جس پر علی محمد خان اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کے درمیان تلخ کلامی ہوگئی۔
علی محمد خان کا کہنا تھا کہ کمیٹی میں جو سوال آیا ہے اس کا جواب دیا جائے،اگر نازک مزاج ہیں اور جواب نہیں دینا چاہتے تو یہاں نہ آیاکریں،محترم کا لفظ استعمال کررہا ہوں اس کے باوجود جو الیکشن کمشن نے کیا،اگر آپ کے اعتراض درست ہیں تو آپ نے ان 39کو کیسے قبول کیا؟باقی 41 ارکان بھی اسی چیئرمین کی پیروی کرتے ہیں۔الیکشن کمیشن ٹیم نے جواب میں کہا کہ اگر آپ تحمل سے سنیں گے تو ہم جواب دے دیتے ہیں، علی محمد نے جواب میں کہا کہ ہمارے لوگ اٹھائے گئے، ہم تحمل کہاں سے لائیں؟
علی محمد خان اور سیکریٹری الیکشن کمیشن کے درمیان تلخ کلامی پر اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ یہ الیکشن کمیشن کی ڈومین بنتی ہی نہیں ہے، اسے سیاسی رنگ نہیں دینا چاہئے،فیصلہ پارلیمان نے کرنا ہے،سیکریٹیرل اسٹاف کو قانونی سوالات میں نہ الجھائیں،اس میں نہ جائیں،آپ کو پتہ ہے آپ کے دور میں کیا ہوا؟اعظم نذیر تارڑ کے سوال کے جواب میں رکن پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمارے دور میں بھی غلط تھا اور یہ کام اب بھی غلط ہے۔